اسلام ناب محمدی(ص) اور مستکبر امریکی اسلام

اسلام ناب محمدی(ص) اور مستکبر امریکی اسلام

امام خمینی(رح) نے اپنی باطنی بصیرت اور دوراندیشی کی بدولت مسلمانوں کی سیاسی ثقافت میں بعض ایسے مفاہیم اور اصطلاحات روشناس کروائیں، جن کے مثبت نتائج اور برکات آج تک محسوس کئے جا رہے ہیں۔

انقلاب اسلامی کے بانی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی باطنی بصیرت اور دوراندیشی کی بدولت مسلمانوں کی سیاسی ثقافت میں بعض ایسے مفاہیم اور اصطلاحات روشناس کروائیں، جن کے مثبت نتائج اور برکات آج تک محسوس کئے جا رہے ہیں۔ انہیں اصطلاحات میں سے دو "حقیقی محمدی(ص) اسلام" اور "امریکی اسلام" کے عناوین تھے۔ اگر مسلمانوں کی سیاسی ثقافت میں ان دو مفاہیم پر خاطر خواہ توجہ دی جائے اور مسلمانان عالم ان دو عناوین سے اچھی طرح آگاہ ہوجائیں تو اسلام کے بدترین دشمن یعنی امریکہ اور صہیونزم بھی اسلامی دنیا کا بال بیکا نہیں کرسکتے۔ اسی طرح نام نھاد اسلامی شدت پسند گروہوں جیسے القاعدہ، داعش، وہابیت، طالبان وغیرہ کا اثرورسوخ بھی ختم ہوسکتا ہے، کیونکہ یہ گروہ جاہل اور سادہ لوح انسانوں کو اسلام کے نام پر دھوکہ دے کر اپنے جال میں پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان دو اصطلاحات یعنی "حقیقی محمدی(ص) اسلام" اور "امریکی اسلام" کو بہتر انداز میں پہچاننے کیلئے ہمیں اسلام کی حقیقت کو جاننا پڑے گا۔ حقیقی محمدی(ص) اسلام سے مراد خالص اسلام ہے جو قرآن کریم اور سنت و سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اولیاء الٰہی کے ذریعے پہچانا جاتا ہے۔ لیکن امریکی اسلام سے مراد وہ نام نھاد اسلام ہے جسے اسلام دشمن قوتیں جیسے امریکہ اور عالمی صہیونزم پسند کرتے ہیں، کیونکہ ایسا اسلام ان کے مفادات کیلئے کوئی نقصان نہیں رکھتا اور مغربی ثقافت سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے، بلکہ اس کی بنیاد ہی مغربی ثقافتی اقدار پر استوار ہیں اور وہ عالمی استکباری قوتوں کے مفادات کو پورا کرتا ہے۔ کسی بھی چیز کو پہچاننے کیلئے اس کی صفات اور خصوصیات کا جاننا انتہائی ضروری ہے۔ لہذا ہم اس موجودہ تحریر میں دونوں قسم کے اسلام کی طرف اشارہ کریں گے، تاکہ ان میں فرق کو واضح کیا جاسکے۔

امریکی اسلام کی خصوصیات
1)۔ خدا کے دشمنوں سے دوستی
امریکی اسلام کی رو سے نہ صرف کفار اور خدا کے دشمنوں سے دوستی میں کوئی مضائقہ نہیں، بلکہ کفار سے دوستی، مختلف اسلامی مذاہب کے ساتھ دوستی سے بہتر ہے۔ خطے میں وہابی حکومتوں کا رویہ اس سوچ کا واضح نمونہ ہے۔ وہ ایسے افراد پر شرک و کفر کے فتوے لگاتے ہیں جن کے (بعض) اعتقادات ان سے مختلف ہیں، جبکہ قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہوتا ہے:
وَ لاٰ تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقىٰ إِلَيْكُمُ اَلسَّلاٰمَ لَسْتَ مُؤْمِناً ﴿النساء، 94﴾
"جو شخص صلح اور اسلام کا اظہار کرتا ہے، اسے ہرگز نہ کہو کہ تم مسلمان نہیں۔"
دوسری جگہ، قرآن کریم فرماتا ہے:
مُحَمَّدٌ رَسُولُ اَللّٰهِ وَ اَلَّذِينَ مَعَهُ أَشِدّٰاءُ عَلَى اَلْكُفّٰارِ رُحَمٰاءُ بَيْنَهُمْ  ﴿الفتح‏، 29﴾
"محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خدا کا رسول ہے اور اس کے ساتھی کفار کے خلاف سخت رویہ اپنانے والے اور ایکدوسرے کے ساتھ مہربانی سے پیش آنے والے ہیں۔"

2)۔ کفار کے سامنے عاجزی و انکساری کا اظہار
امریکی اسلام کی رو سے مسلمانوں کے مختلف امور کفار کے ہاتھوں میں دینے میں کوئی مضائقہ نہیں بلکہ اگر اکثر سماجی، سیاسی اور اقتصادی امور کفار کے فیصلوں سے انجام پا رہے ہوں تب بھی کوئی حرج نہیں۔ امریکہ کے زیر اثر اسلامی حکومتوں کا یہی حال ہے۔ وہ امریکہ اور دوسری استکباری قوتوں کے زیر اثر ہونے کے ناطے ان کے مفادات کیلئے اپنے اور مسلمانوں کے مفادات کو داو پر لگانے کو تیار ہیں۔ جبکہ قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے:
لَنْ يَجْعَلَ اَللّٰهُ لِلْكٰافِرِينَ عَلَى اَلْمُؤْمِنِينَ سَبِيلاً  ﴿النساء، 141﴾
"خداوند نے مسلمانوں پر کفار کو کوئی اختیار نہیں دیا۔"

3)۔ دین اور سیاست میں جدائی
امریکی اسلام کی بنا پر اسلام ایک ذاتی اور شخصی امر ہے اور اس کا معاشرے اور سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ سماجی اور سیاسی امور حکمرانوں کے ہاتھ میں ہیں اور وہ جو اقدام بھی انجام دیں اور جو پالیسی بھی اختیار کریں، درست اور صحیح ہے!! جبکہ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد ایک اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی اور معاشرے کے تمام سیاسی و سماجی امور وہ خود انجام دیتے تھے۔ لہذا حقیقی محمدی(ص) اسلام کی رو سے دین اور سیاست میں جدائی ممکن نہیں اور اسلام میں ہر طرح کے امور شامل ہیں۔  

4)۔ بے مہار آزادی
امریکی اسلام میں مغربی طرز پر انسان کے ہر طرح سے آزاد ہونے پر تاکید کی جاتی ہے اور امر بالمعروف اور نہی از منکر کو انسان کی آزادی کے خلاف تصور کیا جاتا ہے!! جبکہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالٰی ہوتا ہے:
وَ لْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى اَلْخَيْرِ وَ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ يَنْهَوْنَ عَنِ اَلْمُنْكَرِ وَ أُولٰئِكَ هُمُ اَلْمُفْلِحُونَ  ﴿آل‏عمران‏، 104﴾
"تم میں سے ایک گروہ ایسا ہو جو لوگوں کو خیر کی طرف دعوت دے اور امر بہ معروف اور نہی از منکر انجام دے۔"
لیکن حقیقی محمدی (ص) اسلام کی رو سے انسان کی آزادی شرعی دستورات، قوانین اور اسلامی احکام کے دائرے میں محدود ہے۔ لہذا امر بالمعروف اور نہی از منکر دین کے بنیادی ارکان میں شمار ہوتا ہے۔  

5)۔ ہدف وسیلے کو جائز بناتا ہے
امریکی اسلام کے مطابق ہر وہ اقدام یا امر جو مدمقابل کی شکست کا باعث بنے جائز ہے!! مثال کے طور پر تہمت لگانا، بیگناہ انسانوں کا قتل، معاشرے میں خوف اور وحشت کی فضا پیدا کرنا، جھوٹ بولنا وغیرہ!!

لیکن حقیقی محمدی(ص) اسلام میں حتٰی دشمن کے ساتھ بھی شرعی دستورات کی خلاف ورزی پر مبنی اقدام جائز نہیں۔ دوسری الفاظ میں، ہدف وسیلے کو جائز نہیں بناتا۔  
 
6)۔ مغرب سے متاثر ہونا

امریکی اسلام میں اسلامی احکام اس وقت تک مطلوب اور پسندیدہ ہیں جب تک وہ مغربی ثقافت سے ٹکراتے نہیں ہیں!! لیکن قرآن کریم اس بارے میں فرماتا ہے:
إِنَّ اَلَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهِ وَ يُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اَللّٰهِ وَ رُسُلِهِ وَ يَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَ نَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيلاً  ﴿النساء، 150﴾
"جو خدا اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور خدا اور اس کے رسولوں میں جدائی ڈالنا چاہتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان لائے اور بعض سے کفر کیا، وہ ایمان اور کفر کا درمیانہ راستہ اپنانا چاہتے ہیں۔"
أُولٰئِكَ هُمُ اَلْكٰافِرُونَ حَقًّا وَ أَعْتَدْنٰا لِلْكٰافِرِينَ عَذٰاباً مُهِيناً  ﴿النساء، 151﴾
"یہ حقیقی کافر ہیں اور ہم نے کافروں کیلئے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے"۔
لیکن حقیقی محمدی (ص) اسلام میں: آمَنَ اَلرَّسُولُ بِمٰا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَ اَلْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللّٰهِ وَ مَلاٰئِكَتِهِ وَ كُتُبِهِ وَ رُسُلِهِ ﴿البقرة، 285﴾ "رسول خدا (ص) جو کچھ اپنے رب کی جانب سے ان پر نازل ہوا ہے اس پر ایمان رکھتے ہیں اور تمام مومنین بھی خدا، ملائکہ، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں۔"
پس خداوند نے جو کچھ بھی نازل کیا ہے، مومنین کسی استثناء کے بغیر ان سب کی تصدیق کرتے ہیں۔  
 
حقیقی محمدی(ص) اسلام کی خصوصیات
1)۔ ظلم کا مقابلہ اور مظلوم کی حمایت

حقیقی محمدی(ص) اسلام میں مستضعفین (ہر مسلک ومذہب سے چاہے منسوب ہوں) کی حمایت اور ظلم اور ظالم قوتوں کے ساتھ مقابلہ ہر حالت میں مطلوب اور پسندیدہ امر ہے۔ امام علی علیہ السلام اپنے بیٹوں امام حسن اور امام حسین علیھما السلام کے نام وصیت میں فرماتے ہیں:
كُونَا لِلظَّالِمِ خَصْماً وَ لِلْمَظْلُومِ عَوْنا (نہج البلاغہ، صفحہ 421، خط نمبر 47)
"ہمیشہ ظالم کے ساتھ دشمنی کریں اور مظلوم کا ساتھ دیں۔"

2)۔ شرعی حدود کا اجـــرا
حقیقی محمدی(ص) اسلام کی رو سے شرعی حدود کا اجرا معاشرے کے زندہ ہونے اور اس کی نشو ونما کا باعث بنتا ہے اور خدا کی طرف سے بھی برکتیں اور رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ خداوند متعال اس بارے میں فرماتا ہے:
وَ لَكُمْ فِي اَلْقِصٰاصِ حَيٰاةٌ يٰا أُولِي اَلْأَلْبٰابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ  ﴿البقرة، 179﴾
"اے عقل والو! قصاص (اور شرعی حدود کے اجرا) میں تمہارے لئے زندگی اور حیات پوشیدہ ہے"۔
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
حَدٌّ یُقَامُ فِی الْأَرْضِ أَزْكَى فِیهَا مِنْ مَطَرِ أَرْبَعِینَ لَیْلَةً وَ أَیَّامِهَا (وسائل الشیعہ، جلد 18، صفحہ 308)
"زمین پر ایک شرعی حد کا اجرا چالیس دن کی مفید اور پاکیزہ کرنے والی بارش سے بہتر ہے۔

3)۔ عدالت کو محور قرار دیــنا
حقیقی محمدی(ص) اسلام کی رو سے عدالت محوری حکومت کا لازمی جز ہے۔ لہذا تمام حکومتی عہدوں پر آنے والے افراد کیلئے عدالت بنیادی شرط ہے۔ قرآن کریم فرماتا ہے:
يٰا أَيُّهَا اَلَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوّٰامِينَ لِلّٰهِ شُهَدٰاءَ بِالْقِسْطِ وَ لاٰ يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلىٰ أَلاّٰ تَعْدِلُوا اِعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوىٰ وَ اِتَّقُوا اَللّٰهَ إِنَّ اَللّٰهَ خَبِيرٌ بِمٰا تَعْمَلُونَ  ﴿المائدة، 8﴾
"اے ایمان والو! ہمیشہ خدا کی خاطر قیام کرو اور عدالت کے مطابق گواہی دو، کسی قوم سے دشمنی اس بات کا باعث نہ بنے کہ تم لوگ عدالت کا خیال نہ رکھو، عدالت تقویٰ سے نزدیک ہے، تقویٰ اختیار کرو، خدا تمہارے اعمال سے واقف ہے"۔

4)۔ خدا کو محور قرار دیـــنا
حقیقی محمدی(ص) اسلام میں ہر گناہ قابل مذمت فعل ہے اور انسان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی کے تمام امور میں صرف اور صرف خدا کی رضامندی کو مدنظر قرار دے اور اس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ لیکن امریکی اسلام میں جو گناہ مغربی اقدار سے ہم آہنگی اور مطابقت رکھتے ہوں، ان میں کوئی برائی نہیں اور تمام فیصلوں میں مغربی طاقتوں کی رضامندی کو مدنظر قرار دیا جاتا ہے، جبکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
وَ لَنْ تَرْضىٰ عَنْكَ اَلْيَهُودُ وَ لاَ اَلنَّصٰارىٰ حَتّٰى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ﴿البقرة، 120﴾
"یہودی اور نصرانی اس وقت تک تم سے راضی نہیں ہوں گے جب تک تم ان کے قانون کی پیروی نہیں کرو گے"۔

نتیجتـــاً: مغربی طاقتیں صرف اسی صورت میں ہم سے راضی ہوں گی، جب ہم دین مبین اسلام کی حقیقت کو ترک کرکے صرف اپنے ظاہر کی حد تک اسلام کا خیال رکھیں اور اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مغربی اقدار اور قوانین کی پیروی کرنے لگیں۔ اگرچہ تکفیری گروہوں اور وہابی حکومتوں میں سب سے زیادہ امریکی اسلام کی خصوصیات پائی جاتی ہیں، لیکن ہمیں سیکولر اور لادین حکومتوں سے بھی غافل نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ ان میں بھی ایک حد تک یہ خصوصیات دیکھنے کو ملتی ہیں۔

 

اسلام ٹائمز اردو سے اقتباس

ای میل کریں