اجتماعی عدل وانصاف کا قیام

اسلام قانون کو ایک ذریعے کے طورپر دیکھتا ہے یعنی اسے معاشرے میں عدالت کی برقراری کا وسیلہ جانتا ہے

ID: 46989 | Date: 2017/04/07

امام خمینی  (ره) کے زاویہ نگاہ سے قرآن کا ایک اور مقصد اجتماعی عدل وانصاف کا قیام ہے۔ اس اجتماعی عدل وانصاف کا ذکر آپ نے سماجی احکام اور حکومت کی تشکیل کی تشریح کرتے ہوئے کیا ہے۔ قرآن کریم سورۂ حدید کی آیت نمبر ۲۵ میں  انبیاء کی بعثت اور آسمانی کتب کے نزول کا مقصد یہ قرار دیتا ہے کہ لوگ عدل کے قیام کیلئے اٹھ کھڑے ہوں ۔ اسی طرح اور بہت سی جگہوں  پر قرآن میں  عدل کا حکم دیا گیا ہے۔(سورۂ نساء ؍ ۵۷؛ نحل ؍۷۶۔۵۰؛  حجرات ؍۹؛  نساء ؍ ۱۲۸) البتہ اہم نکتہ یہ ہے کہ قرآن کے مقاصد کو خود قرآن سے تلاش کیا جائے اور عدل وقسط کی بنیاد پر احکام کا رخ معین کیا جائے۔ امام خمینی  (ره)نے بھی اسی چیز کو پیش کیا ہے۔ امام خمینی  (ره) اپنے الٰہی وسیاسی وصیت نامے میں  قرآن کے مہجور ومتروک ہونے کی بات کرتے ہیں  اور اس الٰہی امانت پر حضرت علی  (ع) کی شہادت کے بعد جو کچھ گزری اسے بیان کرتے ہیں  اور اس نکتے کی یاد دہانی کراتے ہیں  کہ قرآن مخالف حکومتوں  نے انسانیت کیلئے مادی ومعنوی زندگی کے عظیم ضابطے کی حیثیت سے قرآن کو میدان سے نکال باہر کیا اور حکومت عدل الٰہی پر کہ جو اس مقدس کتاب کا ایک اہم مقصد تھا، خط بطلان کھینچ دیا اور جس قدر یہ ٹیڑھی بنیاد اوپر اٹھتی گئی اسی قدر انحرافات میں  اضافہ ہوتا گیا یہاں  تک کہ اس قرآن کریم کو کہ جو دنیا والوں  کی ہدایت کیلئے نازل ہوا تھا اور جو تمام مسلمانوں ، بلکہ بنی نوع انسان کے اتحاد کا ذریعہ تھا اور اس لیے نازل ہوا تھا کہ انسانیت کو شیاطین اور طاغوتوں  سے نجات دلائے اور دنیا کو عدل وقسط سے معمور کرے، اس طرح میدان سے نکال دیا گیا کہ جیسے ہدایت کے سلسلے میں  اس کا کوئی کردار ہی نہ ہو۔( صحیفہ امام، ج ۲۱، ص ۳۹۴)


امام خمینی  (ره)کے نظرئیے کے مطابق عدالت کا قیام اور عادلانہ حکومت کی تشکیل اس کتاب کا ایک اہم مقصد ہے ضرورت ادیان اور عقلی حکم یہی ہے کہ انبیاء  (ع) کی بعثت کا مقصد صرف درس اخلاق دینا نہیں ، انبیاء کا اہم ترین فرض احکام وقوانین پر عمل در آمد کے ذریعے نظام عدل اجتماعی کو برقرار کرنا ہے۔ جیسا کہ یہ بات آیت شریفہ سے پوری طرح ثابت ہوتی ہے اور بعثتوں  کا کلی ہدف یہ ہے لوگوں  کی تربیت منصفانہ اجتماعی روابط کی بنیاد پر کی جائے تا آدمیت کو سربلند کیا جائے۔( ولایت فقیہ، ص ۵۹) امام خمینی  (ره)کے نزدیک مکہ مکرمہ میں  بھی اور مدینہ منورہ میں  بھی قرآن کریم کی دعوتیں  خدا تعالیٰ اور فرد کے درمیان شخصی دعوتیں  نہیں  تھیں ، بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ بغیر کسی استثناء کے حتی خدا تعالیٰ نے افراد کے شخصی فرائض کے بارے میں  بھی جو دعوتیں  دی ہیں  ان میں  بھی سیاسی اور سماجی پہلو پائے  جاتے ہیں ۔( صحیفہ امام، ج ۱۸، ص ۴۲۱)


امام خمینی  (ره) نہیں  چاہتے کہ مسئلہ تہذیب نفس کو کم اہم سمجھا جائے اور اس کے مقصد سے صرف نظر کیا جائے، بلکہ آپ کی نظر میں  قرآن میں  جو کچھ ہے اس کا الٰہی پہلو ہے اور وہ تمام مخلوقات کی توجہ خدائے تبارک وتعالیٰ کی طرف موڑنے کیلئے ہے۔ امام خمینی  (ره) ہر ایک کیلئے مقام کے قائل ہیں  اور مقاصد قرآنی کے بارے میں  مراتب کا تعین کرتے ہیں ۔( صحیفہ امام، ج ۸، ص ۴۳۷)


’’قرآن نے بشر کو معنویات کی اس حد تک بلکہ اس سے بھی زیادہ دعوت دی ہے جس حد تک وہ پہنچ سکتا ہے اور پھر وہ عدل قائم کرتا ہے۔ تمام پیغمبر اکرم  (ص) اور وہ کہ جن کی زبان وحی کی زبان تھی ان کے دو رویے تھے، پیغمبر اکرم  (ص) کی سیرت بھی یہ تھی کہ جس وقت تک عدل کی حکومت قائم نہ کی تھی آپ  (ص) معنویت کو تقویت دیتے تھے پھر جیسے ہی حکومت قائم کرنے میں  کامیاب ہوگئے تو آپ  (ص) نے معنویات کے علاوہ عدل کا قیام بھی کیا‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۱۷، ص ۵۲۸)


اسلام قانون کو ایک ذریعے کے طورپر دیکھتا ہے یعنی اسے معاشرے میں  عدالت کی برقراری کا وسیلہ جانتا ہے۔ اعتقادی اور اخلاقی اصلاح اور انسان کی تہذیب کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ قانون مہذب انسان کی تربیت کے مقصد کے پیش نظر منصفانہ سماجی نظام کی تشکیل کیلئے ہوتا ہے۔( ولایت فقیہ، ص ۶۲)


بنابریں ، امام خمینی  (ره)کی نظر میں  عدل قرآنی مقاصد میں  سے ایک ہے اور اسی بنا پر آپ اس بات پر زور دیتے ہیں  کہ قرآن کریم نے حکومت اور اقتدار کی تاکید کی ہے۔ آپ اس بات کے قائل ہیں  کہ عدالت کی برقراری اسلامی حکومت کا ایک فرض ہے اور اسلامی ہونے کی ایک علامت عدالت ہے۔ ’’حکومت ہاتھ میں  لینا بذات خود کوئی شان اور مقام ومنصب نہیں  ہے، بلکہ یہ احکام پر عمل در آمد اور اسلام کے عادلانہ نظام کی برقراری کے فرض کی ادائیگی کا ذریعہ ہے‘‘۔(ولایت فقیہ، ص ۴۴)


آپ کی نظر میں  عدل حکمت الٰہیہ کا تقاضا اور خداوند تعالیٰ کی ناقابل تبدیل سنت ہے اور عدالت اس لیے ہے تاکہ دوسروں  کے حقوق کی پامالی، ظلم وستم اور جارحیت کی روک تھام کی جا سکے اور حاکم لوگوں  کو اسلام کے علوم وعقائد اور نظاموں  سے آشنا کرے۔(ولایت فقیہ، ص ۳۱) امام  (ره) نے ان مقاصد کو بیان کر کے قرآن کریم کے عظیم مقام کی نشاندہی کی ہے اور یہ نصیحت کی ہے کہ ان مقاصد کی بنیاد پر قرآن کریم کی تفسیر وتشریح ہونی چاہیے اور معاشرے میں  اس پر عملدر آمد ہونا چاہیے۔ آگے چل کر ہم امام  (ره) کی روش تفسیر کے بارے میں  اور زیادہ گفتگو کریں گے اور تفسیر اور مفسر کی شرائط کو ان کی نظر میں  پرکھیں گے۔