تفسیر قرآن کے باب میں قدیم زمانے سے ہی جو اسلوب رائج رہا ہے وہ تفسیر قرآن بالقرآن کا اسلوب اور چند آیات کے معانی کو انہی کی مشابہ آیات یا ایک جیسے موضوع کی آیات سے استخراج واستنتاج کرنا ہے کہ جو ایک لفظ، جملے یا موضوع کے فہم میں مدد دیتی ہیں ۔ یہ تفسیری اسلوب، کلام وپیام الٰہی کے فہم کیلئے بنیادی ونہایت قابل اطمینان طریقہ کار شمار ہوتا ہے کیونکہ فطری طورپر متکلم کے مطالب کی شناخت، مشکل وپیچیدہ معانی کو کشف کرنے کی بنیادی ترین کلید، دوسرے مقامات پر اور مختلف مناسبتوں سے بیان کردہ متکلم کا دوسرا کلام ہی ہوتا ہے۔
تفسیر قرآن بالقرآن کے اسلوب سے استفادے کیلئے امام خمینی (ره)دو طرح سے عمل انجام دیتے ہیں : بعض اوقات کسی آیت کے مطلب کے کشف اور فہم کلام کیلئے دوسری آیت کا سہارا لیتے ہیں ، مثال کے طورپر جہاں پر وہ تدبر قرآن اور موانع شناخت کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں اور حبّ جاہ وطلب کو ایک رکاوٹ کے طورپر ذکر کرتے ہیں کہ جو دل پر اپنا تسلط برقرار کر لیتی ہے یہاں تک کہ { فطرۃ اﷲ}کا نور بالکل خاموش ہوجاتا ہے اور انسان کیلئے سعادت کے دروازے بند ہوجاتے ہیں ۔
سورت قدر کی آیت شریفہ { تَنزََّلُ الْمَلاٰئِکَۃُ وَالرُّوحُ } میں روح کے معنی کی تعیین ہے۔ امام خمینی (ره)کے نزدیک روح سے مراد ملائکہ ہیں کہ جو حق تعالیٰ کے وجود کی رحمت کا واسطہ ہیں ، موجودات کے اس عظیم سلسلے کا آغاز اور ان کے خاص ذوق وشوق کا مقصد ہیں اور اصطلاح میں انہیں اہل جبروت کہتے ہیں اور ان میں سے سب پر مقدم اور ان کا سردار روح اعظم ہے۔
البتہ امام خمینی (ره)اس مقدر سوال کے جواب میں کہ اگر روح سے مراد ملائکہ ہوں تو ملائکہ کو ملائکہ کے بعد ذکر کرنا بے جا ہوگا، کہتے ہیں کہ:
یہ خاص ملائکہ ہیں اور ان کا ذکر ان کی عظمت واہمیت کی وجہ سے ہوا ہے اور قرآن کی دوسری آیت کو اپنے اس مدعیٰ کی دلیل کے طورپر بیان کرتے ہیں : { یَومَ یَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلاٰئِکَۃُ صَفَّاً }( ’’جس دن ملائکہ اور روح صف میں کھڑے ہوں گے‘‘ سورۂ نبأ ؍۳۸) یہ بات واضح ہے کہ اس آیت میں اس خاص موجود کا ذکر ہے کہ جو ملائکہ کے ساتھ صف میں خدا کے سامنے کھڑا ہے۔ اسی لیے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سورۂ قدر کی آیت میں اسی روح کو ذکر کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے کہ جو مقرب ترین فرشتوں میں سے ہے۔( آداب الصلاۃ، ص ۳۴۰)
البتہ قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ امام خمینی (ره)تفسیر قرآن بالقرآن سے استفادے کو فہم قرآن کی کلید نہیں سمجھتے، بلکہ دوسرے اسباب وعوامل کو فہم کلام الٰہی کیلئے مقدم سمجھتے ہیں ، مثلاً اس آیت شریفہ { وَتَعٰاوَنُوا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْویٰ وَلاٰ تَعٰاوَنُوا عَلَی الإثْمِ وَالْعُدْوان } (سورۂ مائدہ ؍ ۲) کے حوالے سے فقہا کے درمیان اس حلال چیز کی فروخت کے صحیح ہونے میں اختلاف پایا جاتا ہے جس کو خریدار حرام کام کیلئے استعمال کرتا ہو اور بعض فقہا اس کو حرام قرار دینے کیلئے اس آیت شریفہ سے استدلال کرتے ہیں اور کہتے ہیں : اس قسم کا معاملہ گناہ میں تعاون کرنے کا مصداق ہے، پس اس وجہ سے حرام ہے۔ لیکن محقق فاضل ایروانی نے اس استدلال پر اعتراض کیا ہے اور ایک آیت کی دوسری آیت کے ذریعے تفسیر کرتے اور سیاق کے ساتھ تمسک کرتے ہوئے کہا ہے:
’’اولاً: صدر آیت کہ جس میں خدا فرماتا ہے: { تَعٰاوَنُوا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْویٰ} کے قرینے کے پیش نظر یہاں نہی تحریمی نہیں ہے، بلکہ تنزیہی ہے اور نیکی اور تقویٰ وپرہیزگاری کے امور میں تعاون ایک مستحب عمل ہے، پس آیت کا ذیلی حصہ نہی تحریمی نہیں ہوسکتا۔
ثانیاً: باب تفاعل کے معنی کسی منکر فعل کو مشارکت کی شکل میں انجام دینا ہیں لیکن اگر یہ تعاون آزاد نوعیت کا ہو تو پھر یہ بات تفاعل کے معانی میں سے نہیں ہے‘‘۔
امام خمینی (ره)پہلے اعتراض کے جواب میں کہ آیت کی تفسیر اس کے صدر کے ساتھ کی گئی ہے، تحریر فرماتے ہیں :
’’اگر ہم اس بات کو قبول بھی کرلیں کہ دوسرے مقامات پر اس طرح کا سیاق آیت کے معنی کیلئے قرینہ اور بعض جملے دوسرے بعض جملوں کیلئے قرینہ ہیں لیکن یہاں حکم وموضوع کے تناسب اور حکم عقل کی وجہ سے قرینہ نہیں ہے اور یہاں نہی تحریمی ہے‘‘۔( مکاسب محرمہ، ج ۱، ص ۱۹۷)
محل بحث یہ نکتہ ہے کہ کسی آیت کی دوسری آیت کے ذریعے یا کسی فقرے کی دوسرے فقرے کے ذریعے تفسیر، فقط اس صورت میں فہم کلام میں مدد دیتی ہے کہ جب حکم اور موضوع کے ما بین مناسبت کو مدنظر رکھا جائے یا پھر حکم عقل وہاں پر موجود نہ ہو بالخصوص اثم (گناہ) اور عدوان (ظلم) میں مقارنت اور وابستگی سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں نہی تنزیہی معقول نہیں ہے، کیونکہ عدوان وظلم کے امور میں تعاون کا حرام ہونا ایک بدیہی وواضح اور ضروری امر ہے۔