انسان کے وجود میں عدالت، ایک فطری امر ہے

انسان کے وجود میں عدالت، ایک فطری امر ہے

امام خمینی(رہ) کی نگاہ میں عدالت کمال طلبی کا ایک مصداق ہے اور انسان ذاتی طور پر کمال طلب موجود ومخلوق کا نام ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کمال مطلق سے عشق ومحبت امور فطری میں سے ایک ہے۔

بعض روایات کی روشنی میں عدل اور عدالت جنود عقل میں سے ہیں۔ ان روایات میں سے امام جعفر صادقعلیہ السلام کی وہ مشہور ومعروف حدیث جنود عقل وجہل ہے جس میں آپ نے فرمایا: اِعرفوُا العَقلَ وَ جُنْدَهُ و الجَهْلَ و جُنَدَهُ تَهْتَدوا (1) اس جملہ کے بعد، آپ(ع) نے عقل وجہل کے لشکریوں کی تعداد بیان کرتے ہوئے فرمایا: والعَدلُ و ضِدُّهُ الجَوْرِ (2)

امام خمینی(رہ) اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے عدل کو عقل کا لشکر اور ظلم کو جہل کا لشکر والا قرار دیتے ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عدل انسان کے ذاتیات میں شامل امر ہے جس کی طرف رجحان انسان کی فطرت میں شامل ہے یعنی انسان عدل وعدالت دوست ہوتا ہے اور اسے ظلم وجور سے بیزاری ونفرت ہوا کرتی ہے۔ انسان کی صحیح وسالم طبیعت عدل پسند ہوتی ہے اور ظلم وتشدد سے اسے نفرت ہوا کرتی ہے۔

اس کے علاوہ امام خمینی(رہ) کی نگاہ میں عدالت کمال طلبی کا ایک مصداق ہے اور انسان ذاتی طور پر کمال طلب موجود ومخلوق کا نام ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کمال مطلق سے عشق ومحبت امور فطری میں سے ایک ہے۔(3)

اسی طرح عدالت، خیر، سعادت اور نیکی کے مصادیق میں سے ایک ہے یعنی عدالت ذاتاً حسن، نیک اور خیر ہے اور ظل وستم نیز بے عدالتی ذاتاً قبیح، بد اور شر سے عبارت ہے۔ انسان ذاتی طور پر خیر ونیکی کا طلبگار ہوتا اور اسے شر نیز بدی سے نفرت ہوتی ہے۔ فطرت میں کمال مطلق اور خیر وسعادت مطلقہ کی خواہش ہوتی جو کاروان بشریت میں سعید وشقی اور عالم وجاہل نیز عالی ودانی{پست}کو وجود بخشتی ہے۔(4)

امام خمینی(رہ) کی نگاہ میں عدالت، خیر اور کمال کا دوسرا نام ہے اور ظلم، ستم اسی طرح اپنے حق کی پائمالی اور اسے نادیدہ قرار دینا نقص ہے اور عدل وعدالت فطری طور پر انسان کی پیدا ہوتے ہی اس کے ساته ہوتے ہیں اور سب کے سب اس امر میں مشترک ہیں اور اسے دنیا میں حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ لہذا انسان کے وجود سے اسے ختم کرنا ممکن نہیں ہے، مگر یہ کہ انسان کی فطرت ہی مشکلات سے دوچار ہو گئی ہو! دل ہمیشہ عدالت پسند اور عدالت کی جانب مائل ہوتا ہے اور فطری طور پر ظلم وستم سے اس میں بیزاری پائی جاتی ہے۔ الہی فطریات میں سے عدالت پسندی اور اسے قبول کرنے کے جذبہ سے سرشار ہونا ہے اور اسی طرح ظلم وستم سے دوری رکهنا ہے۔ اگر کہیں اس کے برخلاف پایا جائے سمجه لینا چاہئے کہیں نہ کہیں کوئی بنیادی نقص ضرور پایا جاتا ہے۔(5)

اگر ایسا ہو تو عدل وعدالت اور معاشرے میں اس کا نفاذ مرور زمان کے سبب فرسودہ نہیں ہوتا اور اس میں تبدیلی و انحطاط پیدا نہیں ہوتے بلکہ یہ نظام خلقت میں ایک ثابت نظام ہے اسی سبب ہم بعض عقلی قواعد اور اصول دیکهتے ہیں۔ کسی بهی معاشرے میں فساد اور تباہی سے نجات پانا، اجتماعی عدالت کا قیام، ظلم وبربریت سے دوری اور نفرت، استعماری واستکباری طاقتوں سے دور رہنا وغیرہ وہ امور ہیں جن کی بنیاد عدالت پر منحصر ہے اور زمانہ گزرنے سے تاریخ انسانیت اور اجتماعی زندگی میں یہ کبهی بهی کہنہ وفرسودہ نہیں ہوتے ہیں۔(6)

منبع: اندیشه سیاسی امام خمینی، محمد حسین جمشیدی، ص289-303

حوالہ جات:

[1] ابوجعفر محمدبن یعقوب کلینى، الکافى، ج 1، ص 23.

[2] ایضاً، ص 24.

[3] شرح حدیث جنود عقل و جهل، ص 99.

[4] ایضاً، صص 76ـ77.

[5] شرح چهل حدیث، ص 113.

[6] صحیفۀ امام، ج 21، ص 405، امام خمینى، آخرین پیام، وصیتنامۀ سیاسى ـ الهى، ص 22ـ23. 

 

ماخذ: امام خمینی(رہ) پورٹل - فارسی

ای میل کریں