روزنامہ اطلاعات؛ محمد علی خسروی

امام خمینی(رہ) کی ایک نئی پہچان

روزنامہ اطلاعات؛ محمد علی خسروی کی ایک یادداشت

بڑے افسوس کی بات ہے کے جب امام خمینی رہ کا نام لیا جاتا ہے تو لوگوں کے ذہن میں ایک سیاسی ،بہادر اور انقلابی شخصیت کا تصور آتا ہے اور یہ کہا جاتا کے ظالم کے خلاف لڑنے کے علاوہ امام کی کوئی پیچان نہیں۔

یہ الگ بات ہے کے انقلاب لانا اسلامی نظام کو نافذ کرنا ایک بہت بڑا کارنامہ لیکن ہم بھول جاتے ہیں کے امام کے کارناموں میں سے یہ ایک کارنامہ ہے نہ کہ صرف امام نے یہی ایک کام کیا ہو اس سے پہلے کے امام ایک سیاسی اور اسلامی نظام کے بانی ہوں  مختلف علوم میں ایک بہترین محقق اور صاحب نظر تھے اور یہ بات بڑے فخر سے کہی جا سکتی ہے حوزہ علمیہ میں شیخ طوسی سے لیکر آج  تک فقہ،فلسفہ،تفسیر اور کلام میں امام رہ جیسے بہت کم افراد ملیں ہیں یہ بات  کوئی مبالغہ آرائی نہیں بلکہ حقیقت ہے لیکن امام نے جس تحریک کی بنیاد رکھی اس کی وجہ سے امام کی علمی شخصیت کو عیاں نہیں کیا جاتا البتہ امام رہ نے علم فقہ،اخلاق اور علم کلام میں جو خلاقیت ایجاد کی وہ کسی کے لئے پوشیدہ نہیں لیکن ملک میں جس طرح سے امام کی علمی خدمات کو پیش کیا جانا چاہیے تھا اس طرح پیش نہیں کیا گیا کیا معلوم بہت سارے محققین امام کو ایک سیاسی شخصیت سمجھ کر ان کے علمی منابع کی طرف رجوع نہ کرتے ہوں اور امام کے علمی نکات سے محروم ہوں۔

امام کے علمی منابع سے غفلت ایک ایسے انحراف کی شروعات کو جس میں سماج کو حکومتی قوانین اور حکمت عملی کی تشخیص میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑھ سکتا ہے کیوںکہ امام کے سیاسی مواضع کی تحلیل امام کے اجتھادی۔تحقیقی اور عرفانی مواضع سے مختلف ہوگی اگر ہماری جوان نسل نہ جانے کے امام نے انقلابی ہونے سے پہلے اپنی جوانی کے کئی سال اپنی زندگی کے بیشتر دن مطالعہ، تحقیق خود سازی اور اخلاق کے بہترین مقام اور معنوی کمالات کو حاصل کرنے کے لئے  اپنے نفس کے ساتھ لڑائی اور اسلامی قوانین کی پیروی  میں گزارے اگر آج کی نسل یہ نہ جان نہ سکے کے  اس سے پہلے کے امام شاہ اور امریکہ جیسی طاقت کو مسمار کرتے امام نے اپنے نفس کو اپنی عقل اور ایمان کا مطیع بنایا ہوا تھا کیا معلوم ایک انقلابی اور امام کاعاشق جوان امام کی شخصیت کے متعلق اپنی سطحی معلومات کی بنا پر ایک خطرناک راستہ کا انتخاب کرتے ہوے انسانیت  اور اخلاقی ارزشوں جو کہ امام کا اھداف میں سے تھے روند دے ۔

انحراف یہیں سے شروع ہوتا ہے کے ہم امام کی شخصیت کے دوسرے پہلوں کو نظر انداز کرتے ہوے صرف ایک پہلو کو اپنا الگو قرار دیں جبکہ امام کی زندگی میں دوسرے بھی بہت سارے مہم پہلوں ہیں جن میں اخلاق،قرآن سے محبت اور احکام شرعی کی پابندی موجود ہیں جن کو نہیں بھولنا چاہیے بے شک امام ایک فقیہ عارف فیلسوف اور اخلاق کے استاد ان کی شخصیت کو صرف انقلابی شخصیت میں منحصر کرنا اس مرد الہی کے حق میں ظلم ہے اور اس کے اثرات انقلاب کے چہرہ کو خراب اور اس کو علم اور دانش سے خالی کرنا ہے۔امام کی شخصیت کی پہچان اور ان کے  قرآنی،علوم عقلی اور نقلی،اجتہادی،عرفانی اور اخلاقی افکار کو پہچاننا ضروری ہے  علم اخلاق اور علم عرفان مہم ترین علوم میں سے ہین جن پر ملک کے حوزہ علمیہ اور یونیورسٹیوں کو زیادہ توجہ دیدنی چاہییے۔

امام کی شخصیت کے بارے میں تنگ نظری اور ان کے سیاسی افکار کو پھیلانا کے جو عموما میڈیا میں الگ الگ اہداف سے پیش کئے جاتے ہیں اگر چہ تھوڑے وقت کے لئے مفید ثابت ہیں لیکن کچھ عرصے کے بعد ان کے منفی اثرات مرتب ہوں گے انقلاب کے علمی اور عقلی اقدار سے فاصلہ اور دوری گویا اسلامی جمہوری کے درخت کی جڑوں  کو جن میں امام کے علمی اور قرآنی افکار موجود ہیں خشک کرنا ہے اگر سماج سے مقاصد اور ترغیبات کو ہٹایا جاے تو سماج میں نا امیدی اور مایوسی چھا جاے گی ہمیں نہیں بھولنا چاہییے امام کی شخصیت اور انقلاب کا ہدف دینی اور عقلی معارف کی ترویج اور انسانی آدرش کے تحقق کے علاوہ کچھ نہیں۔

ای میل کریں