اسلامی جمہوریہ ایران امام خمینی(ره) کے سیاسی نظرئیے کی بنیاد پر قائم ہوا ہے جبکہ شاہی نظام کا انحصار شاہ کے انفرادی اقتدار پر تھا ۔ ان دونوں حکومتوں کی ماہیت میں تضاد کا وجود فطری بات ہے۔
شاہ کا طرز حکومت مختصراً اس طرح تھا: غیر ملکیوں کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آنا اور ملک کے اندر درشتی کا اظہار ، دوسرے الفاظ میں شاہ کی توجہ کو اپنی طرف مرکوز کرنے والا علاقہ ایران کی سرحدوں سے باہر تھا اور اس کی نظریں غیر ملکیوں کی طرف لگی ہوئی تھیں ۔ شاہ اپنی بادشاہت کو برطانیہ کی مرہون منت اور اس کے جاری رہنے کو امریکہ اور برطانیہ پر منحصر سمجھتا تھا، اسی لئے اس کا یہ عقیدہ تھا کہ ملک کے اندر ان دو ممالک کی رضایت حاصل کئے بغیر معمولی قدم بھی نہیں اٹھایا جا سکتا ہے۔ اسی سوچ کی بنا پر شاہ، ایران ان کے اندر غیر ملکی منصوبوں کے تحت حکمت عملی طے کرتا تھا اور ان ممالک کے ایما پر سیاسی، ثقافتی ، اقتصادی اور معاشرتی شعبوں میں منصوبے بناتا تھا۔ مثال کے طور پر انقلاب سفید کا منصوبہ جو شاہ کے بقول ایران میں بنیادی تبدیلیوں کا سبب تھا امریکہ میں بنایا گیا اور اسے نافذ کرنے کے لئے شاہ کے حوالہ کیا گیا۔ اس دور میں امریکی حکمت عملی کے ماہرین امریکہ سے وابستہ چند ممالک کے ساسی اور اقتصادی حالت کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ ان ممالک میں انقلابی توانائیوں میں اضافہ ہوا ہے، اسی لئے ایسا منصوبہ بنانا چاہئے کہ یہ توانائیاں کمزور ہوجائیں ۔ ایران اور فلپائن کے بارے میں بنائے گئے امریکی منصوبے کی بنیاد انقلابی محرکات کے خلاف تھی۔ یہ منصوبہ جسے شاہ نے انقلاب سفید کے عنوان سے نافذ کیا زیادہ تر اقتصادی پہلو کا حامل تھا جسے ، انقلابی محرکات کا کچلنے کے لئے بنایا گیا تھا۔
اس دور میں بائیں بازو کی کمیونسٹ تحریکیں فروغ پا رہی تھیں ، اسی لئے انقلاب سفید کا منصوبہ اقتصادی محرکات کوختم کرنے کے ہدف کے ساتھ بنایا گیا تھا اس منصوبے میں کسانوں کو خوش کرنے کے لئے اصلاح اراضی کا پروگرام اور مزدوروں کو کارخانوں کے منافع میں شریک کرنا وغیرہ جیسے اقدامات شامل تھے۔
اس سلسلے میں ایک قابل ذکر مثال یہ ہے کہ ایران میں سیاسی آزادیوں اور انسانی حقوق کا مسئلہ امریکہ میں جمی کارٹر کے دور صدارت میں اٹھایا گیا، اس وقت امریکی ڈیموکریٹس کی پالیسی دنیا میں انسانی حقوق کے مسئلے اور سویت یونین کے مقابلے میں سیاسی آزادیوں کو اچھالنا اور اپنی پٹھو آمر و جابر حکومتوں کے زوال کو روکنے پر مبنی تھی۔ ایسے حالات میں ایران میں آزادیوں کی بحث کی جاتی اور مجلس شورائے ملی (پارلیمنٹ) میں حکومت پر تنقید کی جاتی ہے اس کے نتیجے میں زندانوں اور قیدیوں کی حالت قدرے بہتر ہوجاتی اور اذیت و آزار کا دائرہ محدود تر ہو جاتا ہے ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے شاہ کا طرز حکومت ایسا تھا جو امریکہ کی تایید سے چلتا تھا اگر امریکی آمریت اور جبر و طاقت کی تجویز دیتے تو شاہ اسی راستے کو اختیار کرتا اور اگر ان کے مفادات انسانی حقوق اور بعض سیاسی اور معاشرتی آزادیوں سے ہوتے تو شاہ ان کے دئیے اس نسخے پر عمل کرتا تھا۔
خلاصہ یہ ہے کہ غیر ممالک سے وابستگی اور سرحد پار حمایتی اڈوں کے وجود کی وجہ سے شاہ ہمیشہ غیر ملکیوں کے ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آتا تھا، اس کے مقابلے میں اندرون ملک اور ایرانی عوام کے درمیان اڈوں کے نہ ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ سختی کا اظہار کرتا تھا۔ وہ کھل کر کہتا تھا کہ ایرانی عوام کی ثقافت اس سطح پر نہیں پہنچی ہے کہ وہ جمہوری تجربے سے گزر سکیں لہذا میری طرح کے ایک لیڈر کو ان کی سرپرستی کرنی چاہئے اسی طرز فکر کی بنیاد پر شاہ نے رستاخیز پارٹی کی بنیاد رکھی اور اعلان کیا کہ قوم کے تمام افراد کو اس میں شمولیت اختیار کرنا چاہئے ، بصورت دیگر ان کو ملک چھوڑ کر جانا پڑے گا!
انقلاب اسلامی ایران حضرت امام خمینی(ره) کی قیادت میں ایک آمر و جابر اور اغیار سے وابستہ حکومت کی سرنگونی کے لئے برپا ہوا جس نے ایران میں نظام بادشاہت کو سرنگوں کر کے رکھ دیا۔