امام خمینی کے فرانس میں قیام کے اوائل میں مختلف خبر رساں اداروں اور ذرائع ابلاغ کو موقعہ ملا کہ نزدیک سے انقلاب اسلامی کے رہبر سے گفتگو کرسکیں اور مختلف مسائل میں ان کے نقطہ نظر سے آگاہ ہوسکیں۔ اس معاملے میں ذرائع ابلاغ کا جوش و خروش اس حد تک تھا کہ کچھ دنوں میں امام خمینی باری باری ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے، آپ کی اس ملک میں پہلی انٹرویو بی بی سی اور پیرس میں برطانیہ کے ایک تجارتی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے آئندہ کے اسلامی ریاست کے بارے میں گفتگو کی تھی۔
اس انٹرویو میں امام خمینی کی گفتگو پر ایک نظر:
ہم امید کرتے ہیں کہ یہ قیام جو ایرانی قوم نے کیا ہے اپنے حق کے مطالبہ کے لئے ہے اور جس طریقے سے اس انقلاب نے پیشرفت کی ہے اس انقلاب میں اسلحہ کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ لیکن اگر ایک طویل وقت کے لئے ہوا، اگر یہ تنازعات اور بحثیں جو ہیں اور یہ جو انقلاب لانے کی مدت کو دراز کروانا چاہتے ہیں اور اگر شاہ ضد کرے اور ایران میں رہے تو مسلح قیام کے متعلق تجدید نظر کرسکتے ہیں۔
پچھلے ہفتے میں اور ڈیویڈ پرمن جب پیرس گئے تو آیت اللہ خمینی نے بی بی سی فارسی کو اپنے انٹرویو میں اس بارے میں مزید تفصلات دی تھی۔
اس حکومت کو ختم کردیا جانا چاہئے اور اس کے بعد ایک عوامی ریفرینڈم کے ذریعے عبوری حکومت کے لئے ایک شخص کو منتخب کرنا چاہئے اور پھر عوامی رائے سے ایک ایوان کو تشکیل دیا جانا چاہئے اور جب تمام مسائل اور تمام قوانین ایوان سے منظور ہوں تو وہ مسائل قوم پر انحصار کے مطابق ہیں، تو یہ تبدیلی ایک قدرتی تبدیلی ہوگی ایک غیر قانونی حکومت کی قانونی حکومت کی جانب۔
نامہ نگار: آقا ممکن ہے کہ تھوڑی سی وضاحت کریں کے اسلامی جمھوری حکومت سے کیا مراد ہے؟ اور بہت سے کہہ رہے ہیں کہ ہم ایران کے آئین کی طرف واپس جانا چاہتے ہیں اس بارے میں وضاحت فرمائیں گے؟
امام خمینی: آئین کی طرف پلٹنا اس فرسودہ اور غیر قانونی شاہ کی حکومت کی طرف پلٹنا ہے، کہ جو متروک اور رجعتی ہے، اور یہ ناممکن ہے، اور جو لوگ کہتے ہیں کہ واپس جانا چاہتے ہیں بہت کم اور اقلیت میں ہیں اور ملک بھر کے تمام لوگ چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ہم اسلامی حکومت چاہتے ہیں۔ اور اسلامی حکومت اور جمہوری اسلامی عوامی ووٹ اور عوامی ریفرینڈم کے بنیاد پر ایک حکومت ہے اور اس کا آئین، اسلامی قانون ہے اور اسلامی قانون سب سے زیادہ ترقی پسند قانون ہے، اور اس آئین کو وہ حصہ جو اس ترقی پسند قانون کے مطابق ہو اس حد تک اپنی جگہ پر باقی رہے گا اور وہ حصہ جو اس کے مخالف ہو اس قانون کے مطابق خود بخود قانونی حیثیت نہیں رکھتا۔ اس آئین کا مواد زور اور جبر سے عائد کیا گیا ہے جس کو منسوخ ہوجانا چاہئے۔
نامہ نگار: مغرب اور کمیونسٹ معاشرے کے ساتھ آیت اللہ کا تعلق کس طرح کا ہوگا؟
امام خمینی: ان کے ساتھ ہمارے روابط، عادلانہ روابط ہونگے، کہ نہ ان کے ظلم کو برداشت کرینگے اور نہ ان پر ظلم کرینگے، ہم ان کے ساتھ ایک دوسرے کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے عمل کریں گے، اور اگر وہ احترام کو برقرار رکھیں اور صرف ہم پر مسلط نہ رکھیں اور جو کچھ وہ ہمارے ساتھ بلکہ مشرق کے ساتھ کرتے آئے ہیں اس پر تجدید نظر کریں، ہم بھی ان کے سے اچھے اور بہتر تعلقات رکھیں گے اور ان کے ساتھ معاملات بھی انجام دینگے لیکن اپنے انداز سے، نہ ان کے مسلط کردہ یا کسی بھی طرح سے ان کے اچھائی کے لئے ہو۔ ہم ان سے اچھا تعلق رکھتے ہیں، اور کمیونسٹ، کیونکہ اب تک ان کے غلط ارادوں کو ہم نے اپنے ملک کے لئے دیکھا ہے تو نہیں ہوسکتا کہ ہم ان کے ساتھ تعلق رکھیں لیکن یہ کہ وہ ان کاموں سے جو کررہے ہیں دستبردار ہوجائیں اور جو کمیونسٹ ایران میں ہیں وہ اسلام اور اپنے قوم کی طرف دوبارہ پلٹ آئیں کہ ہم ان سے منصفانہ سلوک رکھیں گے، لیکن اگر وہ پہلے کی طرح اپنے ملک سے غداری کریں گے تو ہم اس سے پر دوسری طرح کا سلوک کریں گے۔
صحیفه امام، ج 3، ص: 514- 515