حضرت امام(رح) فرماتے ہیں: "حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی نے کسی نبی سے خطاب فرمایا کہ کسی ایسے شخص کو جو خود سے کمتر سمجھتے ہیں ہمیں دیکھائیں، نبی نے ایک گدھے کی لاش کو چند قدم تک کھینچ لیا تاکہ دیکھائے لیکن فوراً رک گئے۔ خطاب ہوا کہ اگر آپ اسے پیش کرتے تو اپنے مقام سے گرجاتے"۔ اس روایت کی سند کے بارے میں مجھے ابھی علم نہیں لیکن جس مقام پر اولیاء اور انبیاء فائز ہیں شاید خود کو برتر و ممتاز دیکھنا زوال وسقوط کی موجب ہے جو خود ایک قسم کی خودبینی اور خودخواہی ہے، اگرچہ اس نوعیت کی ہو۔
ہفتہ نامہ حریم امام، شمارہ 167
امام (رح)خبردار کرتے ہیں
اگر حوزہ ہائے علمیہ، اُستاد اور مجالس اخلاق اور نصیحت کے بغیر اسی طرح آگے بڑھتے رہے، زوال وسقوط ان کا مقدر ہوگا۔
کیونکر علم فقہ اور اصول کےلئے، استاد اور پڑھنے کی ضرورت ہے، آپ دیکھتے کہ دنیا میں ہر علم وفن اور صنعت کےلئے استاد لازمی ہے، کوئی بھی شخص بنا پڑھے خود سے کسی بھی شعبہ میں expert نہیں ہوسکتا، فقیہ اور عالم نہیں بن سکتا۔ لیکن معنوی اور اخلاقی علوم کو جو انبیاء (علیہم السلام) کی بعثت کا مقصد ہیں اور اہم ترین علوم میں سے ہیں، پڑھنے اور پڑھانے کی ضرورت نہ ہو! اور بغیر کسی استاد کے حاصل ہوسکتا؟ میں نے کئی بار سنا ہے کہ مرحوم علامہ شیخ انصاری(رح) اخلاق اور معنویات کے بھی معلّم تھے۔
معنوی علوم اور معارف کی کمی کے نتیجہ میں حوزہ ہائے علمیہ کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ مادی اور دنیوی مسائل نے علمائے دین کے درمیان جگہ بنائی ہیں اور بہت سے روحانی علما کو معنویت اور اخلاق سے اس قدر دور کردیا ہے کہ انھیں معلوم نہیں کہ عالم دین کسے کہتے ہیں! ایک عالم دین کی ذمہ داری کیا ہے! اس کا نصب العین کیا ہونا چاہیئے؟ بعض علما تو اس انتظار میں ہیں کہ چند باتیں یا کلمہ سیکھ کر اپنے علاقہ یا کسی دوسری جگہ واپس لوٹے، کوئی منصب یا کُرسی پکڑ لے اور دوسروں کے ساتھ جگھڑا کرے! اس شخص کی زبانی جو کہتا تھا ’’شرح لمعہ (حوزہ کی درسی نصاب) پڑھنے دو پھر دیکھنا چودھری سے کیسے نمیٹتا ہوں۔
ہفتہ نامہ حریم امام، شمارہ 163