گیارہ فروری ۱۹۷۹ء کے روز ایران کی سرزمین سے یہ آواز حق نشر ہوئی : ہم ریڈیو انقلاب اسلامی جمہوریہ ایران سے بول رہے ہیں ۔ یہ آواز اسلامی تحریک جس پرسولہ سال قبل امام خمینیؒ کی آوازہ ٔ حق پر ایرانی قوم نے لبیک کہتے ہوئے تحریک مزاحمت ومقاومت کا آغاز کیاتھا ، جس تحریک کی بنیاد قرآن و شریعت کے نفاذ پر رکھی گئی ۔ یہ معاصردنیا کی تمام تحریکوں سے منفرد تحریک اور دنیا کے تمام انقلابات سے منفرد انقلاب ہے جو چھتیس سال گزر جانے کے باوجود روز افزوں ہے۔ یہ ابھی تک ترقی کی بلندیوں کو چھو رہا ہے اور تمام انسانوں خاص کر امّت مسلمہ کو درس عمل دے رہا ہے ، تمام استکباری طاقتوں کی مخالفتوں کے باوجود اپنے راستے پر گامزن ہے۔
اس انقلاب کی تحریک کے اسباب ومحرکات کیا تھے، وہ غور طلب ہیں۔ جب تک ان محرکات کا تجزیہ نہ کیا جائے اس انقلاب سے استفادہ ممکن نہیں۔ چونکہ دنیا کے انقلابات علاقائی، نسلی، یا قومی اقتدار کی بنیاد پر آتے رہے ہیں۔ البتہ انقلاب جمہوریہ اسلام ان نظریات و فکریات سے بالا تر ، فسق و فجور کے خلاف دین اسلام اور قرآن و شریعت کے نفاذ کی غرض سے وجود میں آیا۔ اس انقلاب کی کڑیاں انقلاب کربلا سے بھی ملتی ہیں۔ خود امام خمینی ؒ فرماتے ہیں"میں کچھ بھی نہیں جو کچھ بھی ہوں کربلا کی بدولت ہوںکہ جس طرح نواسہ رسول مقبول(ص) امام حسینؑ نے یزید کے فسق و فجور کے خلاف قیام فرمایا تھا چونکہ یزید بھی مسند خلافت پر بیٹھ کر اسلام کو مٹا رہا تھا اور امّت مسلمہ کو قرآن و شریعت کے رنگ کے بجائے فسق و فجور کے رنگ میں رنگ رہا تھا ، اسی طرح رضاشاہ پہلوی جو استکبار و کفر کا ایجنٹ تھا، ایک اسلامی ملک کو فسق و فجور میں رنگ رہا تھا، وہ بالکل یزید کی طرح غلط کارانہ مشاغل میں غرق تھا اور ملک میں شراب و بے حیائی عروج پر تھی۔ پردہ دار خواتین کے پردے کو شاہ کی پولیس تہران کی گلیوں میں گھوم کر اُتار رہی تھی۔ علماء کی تذلیل عام تھی اور پورا ملک گویا مغربیت کے حوالے کر دیا گیا تھا" بنابریں امام خمینی ؒ نے فاسق و فاجر شاہ کے خلاف آواز بلند فرمائی جس پر ایرانی مسلم قوم نے لبیک کہا۔ا س کے نتیجے میں شاہ نے امام خمینیؒ کو جلا وطن کر دیا۔
آپ پہلے عراق میں اور بعد میں پیرس چلے گئے البتہ ایرانی قوم بے پناہ قربانیاں انجام دینے میں سرگرم رہی اور شاہ کے خلاف تحریک کو ایک لمحہ کیلئے بھی رُکنے نہیں دیا یہاں تک کہ شاہ اپنے ایجنٹوں کو حکومت چلانے کیلئے چھوڑ کر جلا وطن ہوگیا ۔ یکم فروری ۱۹۷۹ء کو پیرس سے امام خمینیؒ کا طیارہ سرزمین ایران کی جانب محو پرواز ہوا ،امامؒ کو عوام الناس نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور بہشت زھراؑ جہاں شہداکا قبرستان تواقع ہے، میں لیا گیا۔امام خمینی ؒ کے ایران پہنچنے کے بعد تحریک آخری مرحلے میں داخل ہوگئی۔ شاہ کی پٹھوں حکومت نے مزید مظالم کا آغاز کردیا اور کرفیو نافذ کرکے حکم دیا کہ کوئی گھر سے باہر نہیں آئے گا ۔ لائوڈ اسپیکروں سے یہ اعلان ہو رہا تھا مگر امام خمینی ؒ نے حکم دیا سب باہر آجائو جس پر عوام کا ایک سیلاب امڈ کے باہر آگیا اور فوج اور پولیس کی فائرنگ میں دسیوں ہزار عوام شہید ہو گئے مگر عوامی سیلاب میں کوئی کمی نہیں آئی ۔ اس پر شاہ کی فوج اور پولیس نے ہتھیار ڈال دیئے اور یوں گیارہ فروری ۱۹۷۹ء کو اسلامی انقلاب ایران میں قرآنی اصولوں کے مطابق قائم ہوگیا اور آج تک یہ قائم ودائم ہے ۔
انقلاب کے بعد امام خمینیؒ دس سال تک بقید حیات رہے اور امریکہ کو ہمیشہ شیطان بزرگ کے نام سے پکار کر اس اسلام دشمن کی مذمت جاری رکھی اور مظلوم قوموں چاہے وہ کسی مذہب و ملت سے تعلق رکھتی ہو، کی حمایت فرمائی ، خاص کر فلسطین کی مظلوم قوم کیلئے امّت مسلمہ کو بیدار فرمایا ۔ بیت مقدّس کی آزادی کیلئے یوم القدس رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو احتجاج کو دنیا بھر میں ترویج دی جو اب بھی جاری و ساری ہے۔ امام خمینیؒ کی ساری زندگی تاریخ انسانیت کا ایک سنہری باب ہے ۔ آپ نے سوویت یونین کو فوراَ قبولِ اسلام کا خط اور رشدی کے خلاف واجب القتل ہونے کا فتویٰ جیسے تاریخی کارنامے بھی انجام دئے ۔ سوویت یونین ٹوٹ گیا اور مسلم ریاستیں آزاد ہو گئیں جب کہ رشدی ابھی بھی اپنے بل سے باہر نہ آکر گویابن موت مررہاہے۔ اس کے مقابلے امام خمینی ؒ کاانقلاب آج بھی زندہ وجاوید حقیقت ہے بدلا نہ تیرے بعد بھی موضوعِ گفتگو تو جا چکا ہے پھر بھی میری محفلوں میں ہے ہم اس موقع پر امام خمینی کی پاک روح کو لاکھوں سلام ِ عقیدت پیش کرتے ہیں اور آپ کے جانشین ولی امر مسلمین آیت اللہ خامنائی مدظلہ العالی کیلئے دعاگو ہیں اور ایرانی قوم جو باطلکے خلاف ہمہ وقت صف آرا رہتی ہے اس کی قربانیوں کو سلام کرتے ہیں ۔ نیز آج امّت مسلمہ پر واضح کر تے ہیں کہ ہم جس قدر استکباری قوتوں کے نشانے پر ہیں اوراسلامی انقلاب ایران سے درس حاصل کرکے لاشرقیہ لاغربیہ اسلامیہ اسلامیہ کے اصولوں قائم ہوکر ہمیں اتحاد بین المسلمین کے پرچم تلے ہی نجات اور سرخ روئی حاصل ہوگی۔