امام کی خصوصیات میں سے ایک، خودسازی اور تہذیب نفس پر دقت اور پابندی تھی، یعنی آپ جب الحمدللہ، انقلاب کرنے میں کامیاب ہوئے اور ملک کی قیادت کی ذمہ داری قبول کی، تقریباً ساٹھ سال، آپ نے اپنی ذات پر مشق اور کام کرچکے تھے۔
امام (رح) کی پہلی تالیف ایک عرفانی، اخلاقی کتاب تھی۔ دوسری تالیف اور تیسری تالیف بھی اسی طرح، یعنی آپ سالوں سال، عرفان اور خودسازی کے مسائل پر کام کرچکے تھے اور الحمدللہ کامیاب بھی ہوئے اور اس عظیم کام کا اجر اور ثواب بھی اللہ تعالٰی سے وصول کیا۔ اچھا جزا بھی آپ کو نصیب ہوا اور ہم جانتے ہیں کہ آخرت میں آپ کا مقام بلند ہے اور اس دنیا میں امام کی نیکیاں اور اچھائیاں کی مناسبت اور صلہ ایسی صورت میں نمایاں ہوا کہ جیسے ہی امام کوئی جملہ فرماتے تھے عوام روٹوں پر نکل آتی تھی۔
میری نظر میں یہ امام کی مرجعیت کی خاطر نہیں تھی۔ آپ کی بات میں اتنی تأثیر اس بناپر نہیں تھی کہ آپ ایک مضبوط اور زبردست سیاسی قائد تھے، کیوںکہ ہم نے دُنیا میں بہت سے سیاسی رہبران کو دیکھا ہے۔ ہم نے بہت سے مرجع اور فقیہ کو دیکھا، لیکن جو چیز امام میں ایک غیر معمولی حالت اور مافوق تصور کے طور پر حقیقتاً موجود تھی، وہ امام کا خلوص اور نفس کی پاکیزگی تھی۔
امام کا خلوص ہی وہ چیز تھی جو گفتگو کرتے وقت، تمام سامعین چاہے جو لوگ بلا واسطہ امام کی باتوں کو سنتے اور چاہے وہ لوگ جو ریڈیو اور ٹی وی سے سنتے تھے، ایک جذاب روح کی مانند ان کی فکر، ذہن اور دل میں جگہ بناتی تھی۔ چنانچہ عوام، امام (رح) کے دستور کے مطابق عمل اور اقدام کرتے تھے۔
یہ جو ہم دیکھتے تھے کہ پوری قوم، امام کے کلام کی پیروی میں روٹوں پر نکل آتی تھی اور اُن میں سے کچھ شہید، کچھ زخمی، کچھ جیل جاتے اور کچھ نے اذیتیں برداشت کیں، یہ تمام کے تمام اپنی جگہ درست ہے کہ وقت کے اجتماعی حالات نے پیدا کیا ہے لیکن اللہ تعالی کے علاوہ کس نے نہ ڈرنا کا عنصر اور جذبہ ایران کی قوم میں پیدا کیا؟ یقیناً امام کے خلوص کلام کا اثر اور نتیجہ تھا۔
منبع: دیدگاھہا؛ منتخبی از مواضع حجۃ الاسلام حاج سید احمد خمینی؛ ص۹