اگر علم ہوتا اور تہذیب نفس نہ ہوتی، اگر بشریت سے انبیاء ؑ کو نکال دیا جائے یا یہ فرض کریں کہ انبیاء شروع ہی سے نہ ہوتے اور انسان خود بخود پرورش پاتا تو تمام انسانیت ہلاک ونابود ہوجاتی اور بشریت میں کوئی ایک اچھا انسان پیدا ہی نہ ہوتا۔ یہ جو آج آپ مشاہدہ کررہے ہیں کہ بہت سے افراد نیک ہیں ، یہ سب انبیاء الٰہی ؑ کی معنوی تربیت کی برکت کے سبب سے ہیں ۔ انبیاء کی اسی معنوی تربیت کو در حالیکہ تمام افراد نے قبول نہیں کیا تھا، لیکن اس کے باوجود اس نے دنیا میں اتنی نورافشانی کی ہے کہ بہت سے لوگ اور معاشرے کے پسے ہوئے افراد، نیک راہ کے راہی بن گئے ہیں ۔ ان افراد میں خرابی اور بگاڑ کم پیدا ہوتا ہے۔
اگر ہم فرض کریں کہ آپ حضرات جو یہ چاہتے تھے کہ معاشرے کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں اور اسی لیے آپ نے تعلیم بالغان جیسی تحریک کا آغاز کیا تو اگر آپ اس تعلیم کے ساتھ تربیت نہ کریں اور (اپنی اور معاشرے کی) تہذیب نفس کی طرف توجہ نہ دیں تو آپ کا یہ تعلیم دینے کا عمل لاکھ اچھا ہی سہی لیکن بے قدر وقیمت ہوگا، چنانچہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت لازمی ہے۔ اگر ان نونہالوں کی تعلیم کے ذمہ دار حضرات کی توجہ صرف اس جانب ہو کہ صرف ان کو زیور تعلیم سے آراستہ کریں اور آپ ان کی تربیت وتہذیب نفس کیلئے کوئی اقدامات نہ کریں تو آپ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اپنے وطن کیلئے کوئی ایک مثبت کام اور خدمت انجام نہیں دی۔
(صحیفہ امام، ج ۱۶، ص ۵۰۰)