مشروعیت

مشروعیت کی وضاحت

اسلامی نظریه کے مطابق مشروعیت کا معیار اور سرچشمه خدا کا اذن اور فرمان هے

سوال: برائے مہربانی اسلام میں مشروعیت کی وضاحت فرمائیے اور روشن کیجئے یہ جو کہتے ہیں اسلامی تفکر میں مشروعیت خداوند عالم کی جانب سے ہے نہ لوگوں کی جانب سے، یہ کس معنی میں ہے؟

جواب: مشروعیت کی بطور اختصار یہ تعریف کی جا سکتی ہے کہ مشروعیت قدرت استعمال کرنے و اطاعت کی عقلی توضیح و تبیین اور اعمال قدرت اور حکومت حاکم کی عقلانی وجہ سے عبارت ہے۔ حقیقت میں مشروعیت کے دو اساسی رکن ہیں، اول اس بات کی تبیین کی کہ کس مجوز کے تحت کسی شخص یا گروہ کو دوسروں پر حکومت کرنے کا حق حاصل ہے یا دوسروں پر حکومت کرنے کا جواز ہے کہ ایجابی احکامات صادر کرے؟ دوسرے کون سی چیز حکومت کے احکام و دستورات کی پیروی کو واجب و لازم قرار دیتی ہے کہ لوگ اس کی اطاعت و پیروی کریں؟

دوسرےالفاظ میں حکومت ہمیشہ ایجابی فرامین اور قوانین کے ہمراہ ہ اور "حق حکومت" اور " لزوم [وجوب] اطاعت" کے درمیان ایک طرح کا منطقی رابطہ موجود ہے۔ بنابریں مشروعیت کے بار میں ہر نظریہ دونوں پہلووں پر مشتمل ہو اور اس کی عقلائی اور منطقی وجہ بیان کرے۔

علم کلام اور فقہ سیاسی میں مشروعیت حقانیت کے معنی میں ہے اور غصب کے مقابلے میں استعمال ہوتی ہے۔  بنابراین مشروعیت اس نظریہ کے مطابق اس بات کو بیان کرتی ہے کہ کون شخص یا کون لوگ اور کن ضوابط کے تحت اور کیوں لوگوں پر حکومت کرنے کا حق رکھتے ہیں اور کیوں لوگ ان کی اطاعت و پیروی کریں۔

اسلامی نظریہ کے مطابق مشروعیت کا معیار اور سرچشمہ خدا کا اذن اور فرمان ہے۔ اس نظریہ کی روسے مشروعیت کا ذاتی سرچشمہ اور معیار خداوند عالم ہے کیونکہ وہ دنیا اور انسان کا خالق اور سب کا مالک ہے۔ اور وہی مستقل قدرت، موثر حقیقی، مدبر عالم اور پروردگار عالم و آدم ہے۔ اسلام میں سیاسی حکومت و حاکمیت بھی کہ امور مخلوقات میں ایک طرح کا تصرف ہے۔ اور یہ شان ربوبیت شمار ہوتی ہے۔

ربوبیت الہی میں توحید کے تعلیم خواہ نظام تکوینی میں خواہ نظام تشریعی میں خدا کے علاوہ کسی اور مبدا و سرچشمہ کی متقاضی نہیں ہے۔ قرآن مجید اس بارے میں فرماتا ہے: "ان الحکم الا للہ" (یوسف/40) [حاکمیت صرف خدا سے مخصوص ہے] "ام اتخذوا من دونہ اولیاء فاللہ ہو الولی" (شوری/9) [کیا اپنے لئے خدا کے علاوہ دوسرے اولیاء اختیار کرلئے ہیں صرف خدا صاحب ولایت ہے] لہذا کسی شخص کو بی اصل اولی و عقلائی کی روسے حق حاکمیت اور لوگوں کے اجتماعی امور اور معاملات میں حق تصرف حاصل نہیں ہے مگر یہ کہ خدا کی جانب سے اس کو یہ منصب تفویض ہوا ہو یا کسی معتبر شرعی دلیل سے منصوب یا اس کا ماذون ہونا خدا کی جانب سے ثابت ہواہو. [ نصب یا اذن الہی بلاواسطہ یا بالواسطہ، یعنی پیغمبر یا آپ کی اوصیا کے ذریعے بیان ہو]

اب اہم سوال یہ ہے کہ خداوند عالم نے دوسروں کو یہ حق دیا ہے یا نہیں۔ بہت سارے دلائل کی روسے خداوند عالم نے یہ اذن اور حق پیغمبر اور آپ کے بعد ائمہ معصومین (علیہم السلام) کو دیا ہے اور اس حقیقت کو قرآن مجید نے متعدد آیات میں بیان فرمایا ہے۔ ان میں سے کچھ آیات پیش کی جارہی ہیں۔ " النبی اولی بالمومنین من انفسہم" (احزاب/61) [پیغمبر مومنین پر ان کے نفسوں سے زیادہ حق تصرف و ولایت رکھتے ہیں۔] "اطیعوااللہ و اطیعو الرسول و اولی الامر منکم" (نساء/ 59) [خدا کی اطاعت کرو اور رسول اور تم سے جو صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو۔]

اسی طرح شیعہ امامیہ، ادلہ قطعی کی روسے ائمہ اطہار کو پروردگار عالم کی جانب سے منصوب امام جانتے ہیں اور معتقد ہیں کہ ان کو خاص نص کے ذریعے منصوب کیا گیا ہے. علاوہ بر این شیعہ علما ادلہ عقلی و نقلی کی روسے جامع الشرائط اور با کفایت فقہا کو نص عام کے ذریعے شارع کی طرف سے منصوب اور عصر غیبت میں امر حکومت اور امت  کی سیاسی و اجتماعی رہبری میں امام عصر علیہ السلام کا نائب جانت ہیں۔ اگر چہ اس مسئلہ جس کو ولایت فقیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، عصر غیبت سے مخصوص نہیں اور عصر حضور امام معصوم میں بھی امکان تحقق ہے جیسا کہ مالک اشتر امیرالمومنین (علیہ السلام) کی جانب سے مصر کی ولایت کے لئے منصوب ہوئے. بنابراین بطور خلاصہ مشروعیت، حکومت و حاکم کی حقانیت کے معنی میں ہے کہ یہ حقانیت تحقق یا عدم تحقق خارجی سے قطع نظر نصب و اذن الہی سے پیدا ہوتی ہے۔ لیکن یہ حکومت جب تک کہ مقبولیت [عمومی] نہ رکھتی ہو نوعی مفاداور مصالح امت پر مبنی امور کو ادارہ کرنے کی توانائی اور طاقت سے محروم ہوگی گرچہ شرعا حق حاکمیت اس کو حاصل ہو۔

 

ای میل کریں