سائنسی تفسیر کو مختلف نظریات اور اسلوبوں کا سامنا ہے۔ ظاہراً تفسیر لفظ کے معنی سے پردہ اٹھانے کا نام ہے لیکن اس اصطلاح سے مراد قرآن کی آیات کی ان موضوعات کے تحت وضاحت کرنا ہے کہ جو تجرباتی علوم کے باب میں زیر بحث ہیں ۔ بعض افراد سائنسی تفسیر سے مراد وہ تفسیر لیتے ہیں جس میں سائنسی نظریات کو قرآنی آیات پر تطبیق دی گئی ہو یا قرآن سے سائنسی علوم کا استخراج کیا گیا ہو اور اسی لیے کہا گیا ہے کہ اگر سائنسی تفسیر سے مراد وہ تفسیر ہے جس میں سائنسی اصطلاحات کو قرآنی عبارت پر حکمفرما سمجھا گیا ہو اور مختلف علوم کا قرآن سے استخراج کیا گیا ہو تو یہ قابل قبول نہیں ہے۔
دوسرا نظریہ یہ ہے کہ جس طرح ادب، لغت اور تاریخ جیسے علوم قرآن کی خدمت کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں اور فہم قرآن کیلئے ان سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے، تجرباتی علوم بھی اسی طرح اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں ۔اور وہ ان آیات کو سمجھنے میں مفسر کی مدد کرسکتے ہیں جن میں کسی نہ کسی انداز میں کسی سائنسی مسئلے کی جانب اشارہ کیا گیا ہو۔
اس بنا پر، چونکہ قرآن، سائنس کا مخالف نہیں ہے اور { لاٰ یَأْتِیہِ الباطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلاٰ مِنْ خَلْفِہ} (’’یہ وہ عظیم کتاب ہے کہ جس کے سامنے پیچھے سے باطل اس کی طرف نہیں آسکتا‘‘ فصلت ؍۴۳) اسی وجہ سے قرآن کوئی ایسی بات نہیں کرسکتا جو سائنسی حقائق کے خلاف ہو۔ وہ بطلان کا علم ہونے کے باوجود باطل کا قصد نہیں کرسکتا { اِنہُ لَقَولٌ فَصْل۷ وَمٰا ہُوَ بِالْہَزْل}(’’قرآن محکم ویقینی کلام ہے کہ جس میں بے ہودہ ولغو اور مزاح والی باتیں نہیں ‘‘ طارق ؍۱۳) یہ جو قرآن میں مذاق اور بے ہودہ باتیں نہیں ہیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن میں بیان شدہ مسائل کی تفسیر ایسی ہونی چاہیے جو تجرباتی علوم کے خلاف نہ ہو۔
اس مقدمے کے بعد اب ہم امام خمینی (ره)کے تفسیری نکات کا رخ کرتے ہیں ۔ آپ کی سائنسی تفسیر کی خصوصیات درج ذیل ہیں :
الف: قرآن ہدایت اور بنی نوع انسان کو اﷲ کی جانب دعوت دینے والی کتاب ہے اور اس کا اہم مقصد معارف کو بیان کرنا ہے۔ اگر اس کتاب میں سائنسی مسائل بیان ہوئے ہیں اور یہ کتاب اعجاز کی حامل ہے تو یہ خالق کائنات کی نشانی اور علامت کے طورپر ہے۔ خداوند عالم نے ان مسائل کو اس لیے بیان کیا ہے تاکہ اہم مسائل کی طرف توجہ رہے، اسی وجہ سے ساری توجہ اس جہت کی طرف رہنی چاہیے۔
’’قرآن مجید توحید کے لطائف وحقائق اور اسرار کا اس قدر جامع ہے کہ اہل معرفت کی عقول حیران وششدر ہیں اور یہ اسی عظیم آسمانی صحیفے کا عظیم نورانی معجزہ ہے۔ صرف حسن ترکیب، لطف بیان اور غایت فصاحت اور۔۔۔ خاندانی نظام کا استحکام وغیرہ ہی نہیں ۔۔۔ اس میں اہم ترین جہت بھی تھی جس کے اعجاز کا درجہ بلند اور جس کے ادراک کی بنیاد عالی تھی۔ اس لے زمانے کے عرب اس کا ادراک نہ کرسکے۔۔۔ لیکن جو توحید وتجرید کے لطائف سے با خبر اور اسرار ودقیق معارف سے آشنا ہیں اس کتاب میں ان کا مطمح نظر اور منتہائے مقصود یہی معارف ہیں اور وہ دوسرے پہلوؤں کی طرف زیادہ توجہ نہیں دیتے ہیں ‘‘۔(آداب الصلاۃ، ص ۲۶۳)
امام خمینی (ره)قرآنی پیغامات کے سلسلے میں اس نکتے کو قبول کرتے ہوئے کہ قرآن میں بہت سے علوم موجود ہیں لیکن قرآنی پیغام کی بنیاد اور ہی چیز ہے، فرماتے ہیں :
’’قرآن کریم کہ جو تمام مکاتب اور کتب میں سر فہرست ہے تمام الٰہی کتب انسان سازی کیلئے آئی ہیں ۔۔۔ اور تمام علوم ومعارف الٰہی اور تمام عبادات۔۔۔ تمام چیزیں اس مقصد کیلئے ہیں کہ ناقص انسان کو کامل انسان بنائیں ‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۳، ص ۲۱۸)