عقل و احکام اسلام، پیغمبر ﷺ وحضرت علی (ع) کی سیرت، آیتوں اور روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت کی تشکیل ضروری ہے۔ ہم یہاں نمونے کے طورپر حضرت امام علی رضا (ع) سے منقول ایک روایت بیان کرتے ہیں:
عبد الواحد بن محمد بن عبدوس نیشاپوری عطار کہتے ہیں کہ یہ حدیث مجھ سے ابو الحسن علی بن محمد بن قتیبہ نیشاپوری نے بیان کی وہ کہتے ہیں: ابو محمد فضل بن شاذان نیشاپوری بیان کرتے ہیں:
{۔۔۔ اِنْ سأَلَ سائِلٌ فقال: أَخْبِرْني ہَلْ یَجُوزُ أَنْ یُکَلِّفَ الْحَکِیْم۔۔۔} (علل الشرائع، ج ۱، ص ۲۵۱، باب ۱۸۲، ح ۹)
حدیث کا پہلا حصہ نبوت سے متعلق ہے جو کہ اس وقت موضوع بحث نہیں ہے لہذا ہم نے اسے بیان نہیں کیا، ہمارا موضوع بحث آخری حصہ ہے؛ امام ؑفرماتے ہیں:
اگر کوئی شخص پوچھے: خداوند عالم نے اولی الامر کو کیوں قرار دیا؟ نیز ان کی اطاعت کا حکم کیوں دیا؟ تو جواب میں کہا جائے گا کہ اس کی بہت سی علتیں ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ لوگوں کو ایک خاص ومعین طریقہ پر قرار دیا گیا اور انہیں حکم دیا گیا کہ اس طریقہ سے تجاوز نہ کریں اور معین حدود وقوانین سے تجاوز نہ کریں، اس لیے کہ اگر تجاوز کریں گے تو فساد میں مبتلا ہوجائیں گے، دوسرے یہ کہ یہ امر واقع نہیں ہوسکتا اور نہ لوگ معین راستہ پر چل سکتے ہیں اور نہ رہ سکتے ہیں اور نہ ہی قوانین الٰہی پر عمل پیرا ہوں گے، مگر یہ کہ کوئی امین ونگہبان ان پر مقرر کردیا جائے جو انہیں ان کی حدود سے تجاوز نہ کرنے دے، کیونکہ اگر ایسا نہیں ہوا اور کوئی ذمہ دار یا کوئی قدرت وطاقت انہیں روکنے والی نہیں ہوگی تو کوئی بھی اس لذت اور فائدہ سے قدم پیچھے نہیں ہٹائے گا کہ جو دوسروں پر ظلم وستم کرنے سے متعلق ہے۔ اس طرح یہ لوگ لذت اور ذاتی فائدہ کیلئے دوسروں پر ظلم وستم کریں گے اور انہیں تباہ وبرباد کردیں گے۔ دوسری وجہ یہ کہ ہم نے کسی فرقہ وملت کو نہیں دیکھا کہ اس نے کسی محافظ نظام، سربراہ، رئیس اور راہبر کے بغیر زندگی بسر کی ہو کیونکہ دینی اور دنیوی امور کو انجام دینے میں اس طرح کے شخص کے ضرورتمند ہیں، لہذا خدائے حکیم کی حکمت کیلئے یہ مناسبت نہیں کہ وہ اپنی مخلوق کو کسی رہبر وسرپرست کے بغیر چھوڑ دے، کیونکہ خداوند عالم جانتا ہے کہ انہیں اس طرح کے شخص کی ضرورت ہے اور وہ اس کے بغیر استحکام حاصل نہیں کرسکتے، وہ اس کی رہبری میں دشمنوں سے جنگ کرتے ہیں اور اپنی عمومی آمدنی تقسیم کردیتے ہیں، نماز جمعہ اور باجماعت نماز پڑھتے ہیں اور ظالموں اور ستمگروں کو مظلوموں کے حقوق سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مذکورہ علل واسباب کے علاوہ ایک یہ ہے کہ اگر ان کیلئے نظام اور قانون کو نافذ کرنے اور باقی رکھنے والا امانتدار خدمت گزار معین نہ کرے تو دین کے ستون کمزور ہوجائیں گے جس کے نتیجے میں آئین ختم اور سنت واسلامی احکام دگرگوں ہوجائیں گے۔ بدعت گزار افراد دین میں بہت سی چیزوں کا اضافہ کردیں گے، ملحدین اور بے دین افراد بہت سی چیزیں کم کردیں گے اور اسے مسلمانوں کے سامنے نئی شکل میں پیش کریں گے، کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ لوگ ناقص ہیں انہیں کمالات کی ضرورت ہے وہ خود کامل نہیں ہیں، اس کے علاوہ آپس میں اختلاف رکھتے ہیں، ان کے میلان دگرگوں اور حالات مختلف ہیں، اس بنا پر اگر کوئی نظم اور قانون قائم کرنے اور اس کی حفاظت نیز پیغمبر اسلام ﷺ نے جو کچھ پہنچایا ہے پر مامور نہ ہو تو لوگ بے راہ رو اور پورا نظام، قوانین وسنتیں اور اسلامی احکام وعہد وقسم سب دگرگوں ہوجائیں گے اور یہ تغیر وتبدل سب لوگوں کی بد عنوانی اور بے راہ روی کا سبب بنے گا۔ چنانچہ امام - کے بیانات سے نتیجہ نکلتا ہے کہ آپ نے حکومت کی تشکیل اور ’’ولی امر‘‘ مقرر کئے جانے کی متعدد دلیلیں پیش کیں جو کسی بھی جہت سے کسی زمانہ سے مختص نہیں ہیں، لہذا نتیجہ نکلتا ہے، حکومت کی تشکیل ہمیشہ ضروری ہے، مثلاً لوگوں کا اسلام کے حدود سے تجاوز کرنا، دوسروں کے حقوق پائمال کرنا، نیز شخصی فائدہ کیلئے دوسروں کے حقوق ضائع کرنا ہمیشہ سے ہے اور یہ ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ یہ چیز صرف حضرت امیر المومنین (ع) کے دور میں تھی اور اس کے بعد سب لوگ فرشتہ ہوگئے، خالق کائنات کی حکمت یہ ہے کہ لوگ عادلانہ زندگی بسر کریں اور احکام خدا کی حدود میں رہیں۔ یہ خدا کی ابدی حکمت اور ایسی سنت ہے جس میں تبدیلی نہیں آسکتی۔ لہذا آج اور ہمیشہ ایک ولی امر یعنی ایسے حاکم کی ضرورت ہے جو نظم اور اسلامی قانون کو نافذ کرنے والا ہو، ایسا حاکم کہ جو دوسروں کے حقوق کی نسبت ظلم وستم کو روکنے والا ہو، نیز امانتدار اور خدا کی مخلوق کی حفاظت کرنے والا ہو۔ اسلام کی تعلیم وعقائد واحکام اور نظام کی طرف لوگوں کو ہدایت کرتا ہو اور دشمن افراد جو دین وقوانین اور نظام میں بدعت ایجاد کرتے ہیں انہیں روکنے والا ہو کیا حضرت علی (ع) کی خلافت انہی چیزوں کیلئے نہیں تھی؟ جن ضرورتوں نے انہیں امام قرار دیا یعنی جو اسباب وعلل اور ضرورتیں اس زمانے میں تھیں، آج بھی ہیں، فرق یہ ہے کہ کوئی شخص معین نہیں ہے بلکہ موضوع کو ’’عنوان‘‘ قرار دے دیا ہے تاکہ ہمیشہ محفوظ رہے۔
ولایت فقیہ، ص ۳۸