امام خمینی (ره)نے قرآن کے مقاصد کی شرح اور تفسیر کے بارے میں جو کچھ بیان کیا ہے وہ درحقیقت عرفانی تفسیر ہی کے تناظر میں ہے۔ یہ جو آپ نے یاد دہانی کرائی ہے کہ مفسر کو چاہیے کہ وہ متعلّم کو قرآن کی آیات میں سے ہر آیت اور اس کے قصص میں سے ہر داستان میں عالم غیب کی طرف ہدایت، سعادت کے راستوں اور انسانیت ومعرفت کی راہوں کے بارے میں سمجھائے۔تو یہ حقیقت میں تفسیر کی اقسام میں سے ایک خاص تفسیر ہے ہر چند آپ کی نظر میں حقیقی مفسر وہ ہے کہ جو مقصد نزول قرآن سمجھائے نہ کہ سبب نزول اور نہ ہی دوسرے علوم قرآن، مثلاً محکم ومتشابہ، ناسخ ومنسوخ اور اعجاز قرآن وغیرہ، اسی لیے آپ فرماتے ہیں :
’’ تفسیر کی کتاب عرفانی، اخلاقی اور عرفانی پہلوؤں کو بیان کرنے والی کتاب ہونی چاہیے جس مفسر نے بھی ان پہلوؤں سے غفلت کی یا ان سے صرف نظر کیا یا ان کو اہمیت نہ دی اس نے قرآن کے مقصد اور کتب الٰہی کے نزول اور بعثت انبیاء (ع) کے مقصود سے غفلت کی‘‘۔(آداب الصلاۃ، ص ۱۹۳)
امام خمینی (ره)تفسیر میں دیگر رجحانات کا انکار نہیں کرتے اور اجتماعی اور سیاسی پیغامات کو بیان کرتے ہیں ۔ لیکن اصل مقصد تفسیر عرفانی کو سمجھتے ہیں اور اس تفسیر کو عالم غیب کی ہدایت اور طریق سعادت وسلوک انسانیت کیلئے راہنما سمجھتے ہیں ۔
جس وقت امام خمینی (ره) اس نکتہ کی یاد دہانی کراتے ہیں کہ قرآن میں بہت زیادہ نصیحتیں اور اسرار موجود ہیں تو حقیقت میں آپ آیات کے دو حصوں یعنی واضح آیات اور ان آیات کی طرف کہ جن میں اسرار اور لطائف پوشیدہ ہیں ، اشارہ کرتے ہیں ۔ یہ کام مفسر عرفاء انجام دیتے ہیں ۔ آپ جس وقت کہتے ہیں کہ قرآن بہت زیادہ مقدار میں عیوب نفس اور اخلاق ابلیس اور اس کے کمالات اور معارف انسان کو بیان کرتا ہے کہ جن سے ہم غافل ہیں تو آپ تفسیر عرفانی اور تفسیر انفسی کی تشریح کر رہے ہوتے ہیں اور الفاظ وکلمات کی تفسیر اور مدلول کلام سے پردہ اٹھانے کے بجائے اپنے باطن کا سفر کرتے ہیں اور انسان کے حالات تشریح اور اپنے سلوک کی مشکلات کو بیان کرتے ہیں اور نص سے مدد لیتے ہوئے نفس کے حالات سے پردہ اٹھاتے ہیں ۔
امام خمینی (ره) قرآن سے استفادے کی راہ عرفانی اور اخلاقی احکام سے پردہ اٹھانے اور ان کو کشف کرنے کو سمجھتے ہیں ، کیونکہ آپ قرآن کو سلوک الی اﷲ، تہذیب نفس اور بیان آداب اور سنن الٰہی کی کتاب سمجھتے ہیں ۔ امام خمینی (ره)قرآن کو خالق ومخلوق کے رابطہ کا سب سے بڑا وسیلہ، مضبوط سہارا، حبل المتین اور ربوبیت سے تمسک کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور قرآن کی تعلیمات کا مقصد مخلوق کے خالق سے رابطے کی کیفیت کے بیان اور دار الغرور سے دار السرور اور خلود کی طرف ہجرت کے بیان کو سمجھتے ہیں ۔اس طرح کی توصیفات واضح طورپر تفسیر میں امام خمینی (ره)کے نظرئیے کو بیان کرتی ہیں اور اس کو تفسیر عرفانی، تفسیر اشاری اور تفسیر انفسی کے علاوہ کچھ اور نام نہیں دیا جا سکتا۔ جس وقت امام خمینی (ره) فرماتے ہیں کہ قرآن میں ایسے عرفانی مسائل ہیں جن کو ہر کوئی درک نہیں کرسکتا اور ان کے درک کیلئے عرفانی ذوق لازمی ہے اور یہ عرفانی ذوق شخص میں ایسا کمال پیدا کرتا ہے کہ جو حاصل شدہ معارف کا وجدان کرتا ہے تو اس وقت آپ اس عرفانی تفسیر کی بات کر رہے ہوتے ہیں جو فیضی ہے یعنی جو فیوض الٰہی کا اثر ہے اور اس وقت آپ گلہ کرتے ہیں کہ بعض مفسرین آیات کا اچھی طرح ادراک نہیں کرپاتے اور ان کا ذوق عرفانی کم ہوچکا ہے اور انہوں نے سلوک کے مراحل میں انسان کے حالات ومسائل کے سلسلے میں کلام کا بخوبی ادراک نہیں کیا ہے۔ (صحیفہ امام، ج ۱۷، ص ۴۵۷)
امام خمینی (ره)کی نظر میں جہاں مفسر شرح الفاظ بیان کرتا ہے، اگر مقصود عرفی معانی ہوں تو سب لوگ ان کو جانتے ہیں اور اگر کسی دوسری چیز کو بیان کیا گیا ہو تو اگرچہ ظاہری طورپر اس کا نام تفسیر ہی ہو لیکن اصل میں وہ تفسیر نہیں ، بلکہ ترجمہ ہے اور مفسر نے قرآن کا بہت کم ادراک کیا ہے۔اور جہاں تفسیر انسان سازی کی کیفیت کو واضح وبیان کرتی ہے تو اس وقت وہ قرآن کے راستے پر گامزن ہوتی ہے۔(صحیفہ امام، ج ۱۹، ص ۸)
یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ امام خمینی (ره)کی تمام تر کوشش تفسیر عرفانی کی طرف مبذول ہے اگرچہ سیاسی واجتماعی اور کلامی رجحانات بھی اپنی جگہ پر اہم ہیں لیکن آپ کی کوشش یہ ہے کہ ایک ہی طرح کی سوچ کا سد باب کیا جائے۔ آپ کی زیادہ تاکید اور تکرار اس حقیقت کا پتہ دیتی ہے کہ آپ کی ساری توجہ اسی رجحان کی طرف تھی وہ بھی اس تعریف کے ساتھ جو ہم نے بیان کی ہے۔
ایک اور چیز جس کو امام خمینی (ره)نے عرفانی تفسیر میں اپنے مدنظر رکھا یہ ہے کہ آپ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ عرفانی نظریات کو میدان میں لایا جائے، مثال کے طورپر آپ عرفانی موضوعات خاص طورپر بحث انسان، فطرت، توحید، آخرت اور معاد وغیرہ سے متعلق نظریات کو عملی جامہ پہناتے تھے۔ مثلاً { اﷲُ نورُ السَّمٰواتِ وَالأرْض } یا { ہُوَ الأَوَّلُ وَالآخِرُ وَالظٰاہِرُ وَالْباطِن } یا سورۂ توحید اور سورۂ حمد کے بارے میں اس انداز سے بحث کرتے کہ جو بیداری اور ہوشیاری پر منتج ہوتی۔
تفسیر عرفانی میں یہ روش خاص اہمیت رکھتی ہے اس لیے عرفانی تفاسیر کی ایک نمایاں خصوصیت عمل کی جانب ان کی راہنمائی کو سمجھا جاسکتا ہے، کیونکہ وہ آیات کی شرح پر اکتفاء نہیں کرتیں ، بلکہ سیر وسلوک کے نسخے پر عملدر آمد کیلئے بھی کوشاں ہوتی ہیں ۔