تفسیر سے واقفیت سے متعلق مشکلات اور اہم شبہات میں سے ایک مسئلہ جائز اور پسندیدہ تفسیر کو مذموم تفسیر سے جدا کرنا ہے۔ فریقین سے منقول متعدد روایات میں تفسیر بالرائے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔
قرآن کے محققین نے اس سلسلے میں گوناگوں احتمالات بیان کئے ہیں کہ تفسیر بالرائے سے کیا مراد ہے اور جن روایات میں تفسیر بالرائے سے منع کیا گیا ہے ان کا تعلق کس صورت کے ساتھ ہے۔ تفسیر بالرائے کے بارے میں تین زاویہ ہائے نگاہ سے بحث کی جاسکتی ہے:
الف: مفسر کے اہداف ومقاصد کہ مفسر قرآن پر اپنے عقائد مسلط کرنا چاہتا ہے۔
ب: قواعد تفسیر کی عدم مراعات کے اعتبار سے۔
ج: ہوا وہوس اور اندرونی ونفسانی میلانات کے اعتبار سے۔
امام خمینی(ره) تفسیر بالرائے کے رائج معنی کے بارے میں حساسیت ظاہر کرتے ہیں ۔ البتہ اس وجہ سے نہیں کہ اخباری تفسیر معصوم (ع) کے علاوہ ہر تفسیر کو تفسیر بالرائے سمجھتے ہیں، بلکہ آپ کی وضاحت ان تشویشوں کے سلسلے میں ہے کہ جن کا اظہار اخلاقی، ایمانی وعرفانی استنادات کے بارے میں کیا گیا ہے اور بعض افراد نے ان کو تفسیر بالرائے قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام خمینی (ره) اپنی بعض تحریروں میں قرآن کے معانی کو اپنے نظریات کے مطابق ڈھالنے اور ان پر تطبیق کرنے کو تفسیر بالرائے سمجھتے ہیں اور فرماتے ہیں جو شخص اپنی آراء کو قرآن کی آیات پر تطبیق دے اور ان کے مطابق قرآن کی تفسیر وتاویل کرے تو اس نے تفسیر بالرائے کی ہے۔ امام خمینی (ره) ان افراد کے اعتراض کے جواب میں کہ جو ہر تفسیر کو ممنوع ومذموم شمار کرتے ہیں فرماتے ہیں :
’’انہوں نے آیات شریفہ میں غور وفکر کرنے کو تفسیر بالرائے کہ جس سے منع کیا گیا ہے، سمجھ لیا ہے اور اپنے اسی باطل نظرئیے اور غلط رائے کی وجہ سے قرآن شریف سے ہر طرح کے استفادے سے محروم کردیا ہے اور اس کو متروک کردیا ہے۔ حالانکہ اخلاقی، ایمانی اور عرفانی نتائج کا تفسیر سے ہی کوئی تعلق نہیں کہ ان کو تفسیر بالرائے قرار دیا جاسکے۔ مثلاً حضرت موسیٰ (ع) کا اپنے عظیم مقام نبوت کے باوجود اس علم کو حاصل کرنے کیلئے جو ان کے پاس نہیں تھا، حضرت خضر (ع) کے ساتھ ان کی گفتگو کےانداز، ان دونوں کے میل جول کی کیفیت، موسیٰ ؑ کے شد رحال، خضر ؑسے اپنی حاجت بیان کرنے کی نوعیت، یہاں تک کہ آیت شریفہ میں آیا ہے: {ہل أتبعک علیٰ اَن تعلمن مما علّمت رشداً } (کہف؍۶۶) اور خضر ؑکے جواب کی نوعیت موسی ؑکی معذرت پر غور وفکر کرنے کے بعد اگر کوئی شخص علمی مقام کی عظمت اور استاد کے ساتھ شاگرد کے روئیے سے متعلق آداب، جو شاید بیس کے قریب آداب ہیں، کا نتیجہ نکالے تو اس کا تفسیر سے ہی کوئی تعلق نہیں کہ اس کو تفسیر بالرائے قرار دیا جائے‘‘۔( آداب الصلاۃ، ص ۱۹۹)
امام (ره) نے ایک اور نکتہ جو تفسیر بالرائے کے سلسلے میں بیان کیا ہے اور اسکے موضوع کو محدود کیا ہے، تفسیر بالرائے کا قالب اور سانچہ ہے۔ جہاں بحث معارف عقلی اور برہانی علوم ایسے اخلاقی مسائل کے بارے میں ہوتی ہے کہ جن کے ادراک میں عقل کو دخل حاصل ہے۔ اگر کوئی شخص کسی مطلب کو قرآن سے سمجھے کہ قواعد برہانی اس کے ساتھ سازگار ہوں تو اس کو تفسیر بالرائے میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ آیت کریمہ {أفلا یتذکّرون القرآن ولوکان من عند غیر اﷲ لوجدوا فیہ اختلافاً کثیراً}(’’کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اور اگر یہ اﷲ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یہ اس میں بڑا اختلاف پاتے‘‘ سورۂ نساء ؍۸۲) سے ثابت ہوتا ہے کہ معارف قرآنی کو آیات میں تحقیق کرنے کے ساتھ حاصل کیا جاسکتا ہے اور اس کے ذریعے سے اس اختلاف کو بر طرف کیا جاسکتا ہے جو ابتدا میں نظر آتا ہے، کیونکہ اس آیت نے قرآن جیسی کتاب لانے کا چیلنج دیا ہے اور یہ آیت قرآن کے پیغامات اور اس کے معانی میں اختلافات کے نہ پائے جانے سے اس کتاب الٰہی کی حقانیت کو ثابت کرنا چاہتی ہے۔ اس صورت میں اگر کوئی ان معارف کو قواعد برہانی سے حاصل کرے تو اس کے ادراک کو تفسیر بالرائے میں شمار کرنا معقول نہیں ہے۔
امام خمینی (ره) ’’شاید‘‘ اور ’’احتمال‘‘ جیسے الفاظ کے ساتھ اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ تفسیر بالرائے عقلی اور برہانی معارف میں نہیں ہوتی ہے:
’’اس کے علاوہ تفسیر بالرائے میں بھی کلام ہے کہ شاید تفسیر بالرائے کی روایات آیات معارف علوم عقلیہ کہ جو برہان کے ساتھ ہم آہنگ ہیں اور اخلاقی آیات کہ عقل کو اس میں دخالت حاصل ہے سے غیر متعلق ہیں،کیونکہ یہ تفاسیر پائیدار براہین عقلی یا واضح اعتبارات عقلیہ ہیں اور اگر کوئی ظاہر ان کے خلاف ہو تو ضروری ہے کہ اس کو اس ظاہر سے پھیر دیا جائے۔ مثلاً آیت کریمہ {وجآء ربُّک} (فجر ؍۲۲) اور {الرّحمٰن علی العرش استویٰ } (طہٰ ؍۵) جو کہ عرفی فہم برہان کے خلاف ہے اس ظاہر کا مسترد کیا جانا اور برہان کے مطابق تفسیر کرنا، تفسیر بالرائے نہیں ہے اور کسی صورت میں بھی ممنوع نہیں ہوگی‘‘۔(آداب الصلاۃ، ص ۲۰۰)
امام خمینی(ره) نے اپنے کلام میں قرآن کی نسبت سنت کے منفرد مقام سے متعلق اپنے نظرئیے کو انتہائی احتیاط کے ساتھ بیان کیا ہے اور اپنے نظرئیے کو پوری احتیاط سے بیان کیا ہے:
’’پس محتمل ہے، بلکہ مظنون ہے کہ تفسیر بالرائے کا تعلق آیات الاحکام کہ جن تک آراء اور عقول کی رسائی نہیں ہے اور جن کو صرف تعبد خزان وحی اور ملائکہ اﷲ کے مہابط کی اطاعت کے ذریعے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے، کے ساتھ ہے جیسا کہ اس سلسلے کی اکثر روایات شریفہ اہل سنت کے ان فقہاء کے مقابل وارد ہوئی ہیں جو دین خدا کو اپنی عقول اور موازنوں کے ساتھ سمجھنا چاہتے تھے اور یہ جو بعض روایات شریفہ میں آیا ہے کہ {لیس شيٌ أبعد من عقول الرجال من تفسیر القرآن}(’’تفسیر قرآن سے زیادہ کوئی چیز بھی لوگوں کی عقل سے دور نہیں ہے‘‘۔ بحار الانوار، ج ۸۹، ص ۹۵،) اور اسی طرح یہ روایت شریفہ: { دین اﷲ لا یُصاب بالعقول}یہ اس بات کی گواہ ہے کہ اﷲ کے دین سے مقصود دین کے تعبدی احکام ہیں وگر نہ اثبات صانع اور توحید وتقدیس اور اثبات معاد ونبوت، بلکہ تمام معارف صرف عقل کا حق اور اسی کے ساتھ مختص ہیں ‘‘۔(آداب الصلاۃ، ۲۰۰)