رزق حلال اور پاک میں کیا فرق ہے؟

رزق حلال اور پاک میں کیا فرق ہے؟

قرآن مجید میں آیا ہے کہ انسان کا رزق، حلال ہونے کے علاوہ پاک بهی ہونا چاہئیے۔ حلال و پاک میں کیا فرق ہے؟

صحیح لغات[1] کے مطابق لفظ" طیب" کے معنی پاک و پاکیزہ ہیں۔ ابن منظور اس معنی کو قبول کرنے کے ضمن میں اعتقاد رکهتے ہیں کہ لفظ " طیب" وسیع معنی میں استعمال ہوتا ہے اور مختلف مواقع پر ان موارد کے متناسب اس کے معنی ہوتے ہیں۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ " پاک زمین" تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ قابل زراعت زمین ،جس میں پودے اگ سکیں۔ نسیم پاک، ملایم ہوا کو کہتے ہیں جس میں تیزی نہ ہو، طعام طیب، یعنی حلال غذا اور پاک عورت، یعنی، پاک دامن خاتون۔ قرآن مجید میں" الطیبات للطیبین والطیبون للطیبات"  کا جملہ اسی معنی میں آیا ہے۔[2]
" قاموس قرآن" نامی کتاب کے مولف نے" طیب" کے معنی دلچسپی اور طبیعت پسندی کئے ہیں اور راغب اصفہانی سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں:  اصل میں "طیب" وہ چیز ہے جس سے انسان کے حواس اور نفس لذت محسوس کریں اور پاک کرنے کو " استطابہ" کہا جاتا ہے، کیونکہ پاک کرنا کسی چیز سے دلچسپی کا سبب بن جاتا ہے۔"
  وہ قرآن مجید کی چند آیات کو بیان کرکے اس معنی کی وضاحت کرتے ہیں۔ من جملہ اس آیہ شریفہ کو بیان کرتے ہیں: یا أَیُّهَا النَّاسُ کُلُوا مِمَّا فِی الْأَرْضِ حَلالًا طَیِّباً وَ لا تَتَّبِعُوا خُطُواتِ الشَّیْطانِ إِنَّهُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُبِینٌ"؛" اے لوگوا جو کچه زمین پر حلال و پاک ہے اسے تناول کرو اور شیطانی وسوسوں کی پیروی نہ کرو، کیونکہ وہ تمهارا کهلا دشمن ہے"۔[3]
  صاحب قاموس کہتے ہیں:" کهانے کے جائز ہونے کی دو شرطیں ہیں: ایک، حلال ہونا یعنی اس میں دوسروں کا حق نہ ہو اور دوسری شرط دلچسپ اور طبیعت پسند ہونا، یعنی نفرت والی چیز نہ ہو، جیسے: گوبر اور فضلہ وغیرہ۔
  اگر ہم حلال کو اس کے تمام شرائط کے ساته شرعی حلال جاننا چاہیں، تو ضروری ہے کہ ہم دوسری آیات و روایات سے استفادہ کریں ورنہ بظاہر حلال وہ ہے کہ اس میں دوسروں کا حق نہ ہو اور دوسروں کے حقوق سے نہ ٹکراتا ہو۔ شیطانی وسوسوں کے تابع ہونا بظاہر حلال و طیب سے تجاوز کرنا ہے۔ اس آیہ شریفہ سے استفادہ ہوتا ہے کہ جو چیز مطلق دلچسپ و پسندیدہ ہو اور اس میں دوسروں کا کوئی حق نہ ہو، اسے کهانا جائز ہے ۔
آیہ شریفہ میں طیبات اور خبائث سے مراد، حقیقی طیبات اور خبائث ہے اور ان کا معیار صرف لوگوں کا نظریہ نہیں ہے، اس لحاظ سے جو کچه شرع میں حرام قرار دیا گیا ہے، وہ اس کی حقیقی خبائث کی وجہ سے ہے، اگر چہ عرف میں اس کو خبائث شمار نہیں کرتے ہوں، جیسے: زنا اور بے حیائی کہ بظاہر ممکن ہے بعض لوگ انهیں خبائث شمار نہ کرتے ہوں۔ اسی طرح ذبیحہ، جس میں اسلامی شرائط کی رعایت نہ کی گئی ہو اور حشرات اور درندوں کا گوشت وغیرہ کہ بہت سے لوگوں کی نظر میں خبائث شمار نہیں ہوتے ہیں، لیکن چونکہ یہ سب چیزیں حقیقت میں خبائث ہیں، اس لئے حرام ہیں اور جن محرمات کے بارے میں شرع میں بیان کیا گیا ہے، حقیقت میں وہ واقعی خبائث کی مثالیں ہیں کہ انسان  ان کے بعض خبائث سے آگاہ نہیں ہے۔[4]                


[1]  جوهری، اسماعیل بن حماد، الصحاح، ج 1 ص 173، دار العلم، بیروت، 1410 ق.

[2] ۔ابن منظور، لسان العرب، ج 1 ص 563، دار صادر، بیروت، 1414 ق.

[3] ۔بقره، 168.

[4] ۔[4] ملاحظہ هو: قرشی، سید علی اکبر، قاموس قرآن، ج 4، ص 257- ص 261، دار الکتب الإسلامیة، تهران، 1371 ش.

 

اسلام کوئست نت

ای میل کریں