اسلام ٹائمز: امام کے آثار کے مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ آپ جمہوریت کو ایک خاص انتخابی روش کے طور پر قبول کرتے تھے۔ آپ کے نزدیک اسلامی جمہوریہ کے نظام میں جمہوریت ایک قالب کی حیثیت رکھتا تھا کہ جس کے سانچے میں اسلامی حکومتی نظام کو ڈھالا گیا ہے۔
جمہوریت ان الفاظ میں سے ہے جن کے ایک سے زائد معانی ہیں۔ آپ اسے اردو کی تنگی داماں کہئے یا کچھ اور۔ ہمارے ہاں ڈیموکریسی اور ریپبلک دونوں کا ترجمہ ''جمہوریت'' ہی کیا جاتا ہے جبکہ اہل علم حضرات جانتے ہیں کہ ان دونوں اصطلاحوں میں اچھا خاصا فرق ہے۔ اصطلاح میں ''ریپبلک'' ایک ایسے حکومتی نظام کو کہتے ہیں جس میں عوام ایک یا چند افراد کو ایک معینہ مدت کے لئے کسی ملک یا علاقے کے نظم و نسق کو چلانے کے لئے منتخب کرتے ہیں۔ ''ڈیمو کریسی'' کا کوئی ایک معین اور مشخص معنی نہیں ہے۔ مختلف دانشوروں نے اپنے اپنے نظریئے اور ذوق کے مطابق اس کے مختلف معانی بیان کئے ہیں۔ ان میں سے بعض معانی اسلامی تعلیمات کے مخالف ہیں جبکہ بعض موافق ہیں۔ اگر ڈیموکریسی کو فقط حکومتی عہدہ داروں کے انتخاب تک محدود قرار دیا جائے تو یہ ریپبلک کا ہم معنی ہے۔ لیکن اگر اس کی تعریف میں یہ کہا جائے کہ یہ ایک ایسا نظام حکومت ہے جس میں عوام کے نمائندے لوگوں کے ہی بنائے ہوئے قوانین کے مطابق حکومت کرتے ہیں تو ڈیموکریسی کا معنی ریپبلک سے مختلف ہوگا۔
ڈیموکریسی کو متعدد انداز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک تقسیم کے مطابق ڈیموکریسی یا مکتبی ہوتی ہے یا غیر مکتبی۔ مکتبی ڈیمو کریسی میں عوام کے منتخب شدہ نمائندے ایک خاص مکتب کی روشنی میں حکومت کرتے ہیں۔ اس قسم کی ڈیمو کریسی میں قوانین ایک خاص مکتب کو مدنظر رکھتے ہوئے وضع کئے جاتے ہیں۔ جبکہ غیرمکتبی ڈیمو کریسی میں قوانین عوام یا عوامی نمائندوں کی رضا و رغبت کے مطابق وضع کئے جاتے ہیں اور اس میں کسی خاص مکتب کا کوئی دخل نہیں ہوتا، ایک اور تقسیم کے مطابق ڈیموکریسی یا کلاسک ہوتی ہے یا میتھوڈیک (Methodic)۔ کلاسک ڈیموکریسی میں عوام براہ راست حکومتی امور کو انجام دیتے ہیں اور حکومتی فیصلوں میں دخالت کرتے ہیں۔ میتھوڈیک ڈیموکریسی میں عوام اپنے نمائندوں کا انتخاب کرتے ہیں اور وہ نمائندے قانون سازی اور حکومت کرتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا امام خمینی جمہوریت کے مخالف تھے؟ اگر وہ جمہوریت کے مخالف تھے تو کیا ریپبلک کے مخالف تھے یا ڈیمو کریسی کے؟ اگر ڈیمو کریسی کے مخالف تھے تو کیا ڈیموکریسی کی تمام اقسام کے مخالف تھے یا چند اقسام کے؟ بالفرض اگر امام جمہوریت کی کچھ اقسام کو مشروع جانتے تھے تو کیا وہ عوام کو صرف حکومتی عہدیداروں کے انتخاب کا حق دیتے تھے یا ان کو قانون گزاری اور نظام کے انتخاب میں بھی شریک جانتے تھے؟ ان سوالوں کے تفصیلی جواب کے لئے قارئین کو کتاب''صحیفہ نور '' کی جانب رجوع کرنا چاہیئے۔ راقم یہاں پر انتہائی اختصار کے ساتھ امام کے فرامین عالیہ میں سے فقط چند گوہر ہائے گراں قیمت کو پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہے۔
یاد رہے کہ انقلاب اسلامی کے نعروں میں سے ایک نعرہ ''استقلال آزادی و جمہوری اسلامی '' ہے۔ ایرانی عوام اپنی خودمختاری اور آزادی کے خواب کو اسلامی جمہوریت کی صورت میں شرمندہ تعبیر کرنا چاہتے تھے۔ امام امت کے ارشادات گراں بہا کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ ایران میں اسلامی جمہوریت کو رائج کرنا چاہتے تھے۔ امام فرماتے ہیں کہ'' اسلامی حکومت اور اسلامی جمہوریہ ایک ایسی حکومت ہے جو عوام کی آراء اور عوامی ریفرنڈم پر مبنی ہے اور اس کا آئین اسلام کا قانون ہے اور حتما اسلامی قانون کے مطابق ہونا چاہیئے''(صحیفہ نور،ج 4 ، صفحہ 248)۔ امام ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں ''ہماری مورد نظر اسلامی جمہوری حکومت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امام علی علیہ السلام کی سیرت سے الہام لے گی اور ملت ایران کی عمومی آرا پر مبنی ہوگی۔ حکومت کی شکل و صورت کا تعین ملت ایران اپنی رائے سے کرے گی''( صحیفہ نور، ج 4، صفحہ 332)۔
امام صحیفہ نور کے اسی صفحے پر مزید فرماتے ہیں کہ ہم عوامی ریفرنڈم کے ذریعے سے ایک اسلامی جمہوریہ تشکیل دیں گے۔ امام ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ''ہم اسلامی جمہوریہ کے قیام کے خواہاں ہیں اور وہ ایک ایسی حکومت ہے جس کا انحصار عوامی آراء پر ہے۔ حکومت کی آخری شکل کا تعین عوام ہمارے معاشرے کی موجودہ صورت حال اور تقاضوں کی بنیاد پر کریں گے'' (صحیفہ نور، ج 4، صفحہ 248)۔ جب ریفرنڈم کے ذریعے ایران کے 98 فیصد سے زائد عوام نے اسلامی جمہوریہ کے حق میں رائے دی تو امام نے ریڈیو پر آ کر اس دن کو عید کا دن قرار دیا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ ملت ایران ہر سال اس دن کو عید کے طور پر منائے۔ (صحیفہ نور ، ج 5، ص 238)
ایک اور مقام پر امام راحل یوں سخن طراز ہوتے ہیں، ''ایران کا حکومتی نظام اسلامی جمہوریہ ہے جو کہ( ملت ایران کی) خودمختاری اور ڈیموکریسی کا محافظ ہے اور یہ نظام اسلامی اصولوں اور قوانین کی روشنی میں وضع کیا جائے گا ''(صحیفہ نور، ج 4، ص309)۔ امام کے اس فرمان سے اشارہ ملتا ہے کہ وہ ڈیموکریسی کے بھی مخالف نہیں تھے۔ لیکن یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ کیا وہ ہر قسم کی ڈیموکریسی کو مشروع جانتے تھے؟ اس سوال کا جواب ہمیں روح خدا کی زبانی کچھ یوں ملتا ہے، ''جو حکومت شاہ کی ظالمانہ حکومت کی جگہ لے گی وہ ایک ایسی عادلانہ حکومت ہوگی جس کی کوئی نظیر مغربی ڈیمو کریسی میں نہیں ملتی اور نہ ہی (آئندہ) ملے گی۔ ممکن ہے کہ ہماری مطلوبہ ڈیموکریسی مغرب میں موجود ڈیمو کریسیوں سے مشابہت رکھتی ہو لیکن وہ ڈیموکریسی جو ہم قائم کرنا چاہتے ہیں مغرب میں موجود نہیں ہے۔ اسلامی ڈیموکریسی مغربی ڈیموکریسی کی نسبت کامل تر ہے۔''( نور ، ج 2، ص 216)
امام ایرانی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے ڈیموکریسی کی تعریف کچھ یوں کرتے ہیں، ''ڈیموکریسی یہ ہے کہ اکثریت ( وہ بھی اس طرح کی اکثریت کی) کی آراء معتبر ہیں۔ اکثریت جو بھی کہے اس کی رائے معتبر ہے۔ اگرچہ یہ رائے ان کے اپنے نقصان میں کیوں نہ ہو۔ آپ عوام کے ولی نہیں ہیں کہ انہیں کہیں کہ یہ (رائے) ان کے نقصان میں ہے۔ آپ عوام کے وکیل (نمائندے) ہیں نہ کہ ولی'' (صحیفہ نور، ج9، ص 304)۔ امام کی نظر میں مغربی ڈیموکریسی جس کا دوسرا نام لیبرل ڈیموکریسی ہے مذموم تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ مشرق میں رائج مغربی طرز کی ڈیموکریسی بھی آپ کے نزدیک قابل مذمت تھی۔ آپ فرماتے ہیں کہ''مغربی ڈیموکریسی بھی فاسد ہے اور مشرقی ڈیمو کریسی بھی۔ اسلامی ڈیموکریسی صحیح ہے۔ اگر ہمیں توفیق حاصل ہوئی تو ہم بعد میں مغرب و مشرق (والوں) کے لئے ثابت کریں گے کہ جو ڈیموکریسی ہمارے پاس ہے وہی حقیقی ڈیموکریسی ہے نہ کہ وہ جو تمہارے پاس ہے۔''(صحیفہ نور، ج 5، ص 238)۔ امام امت مزید فرماتے ہیں کہ اسلام ایک ترقی یافتہ دین ہے اور حقیقی معنوں میں ڈیموکریسی (پر مبنی) ہے۔ (صحیفہ نور، ج 5، ص 353)
صحیفہ نور، جلد نمبر 9 کے صفحہ نمبر 88 اور 89 کے مطابق امام خمینی مُصر تھے کہ ایران میں اسلامی جمہوریت ہو۔ اس کے برعکس کچھ لوگ چاہتے تھے کے اسلامی جمہوریہ کے ساتھ ڈیموکریٹک کی قید بھی لگائی جائے۔ امام نے اس قید کے نہ لگانے کی چند وجوہات بیان فرمائیں۔ آپ کے مطابق ڈیموکریسی ایک مبہم لفظ ہے جس کے مختلف معانی ہیں لہذا آپ نہیں چاہتے تھے کہ ایران کے آئین میں ایک ذومعانی لفظ آئے جس کی بعد میں گوناگون تفسیریں کی جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے کہا کہ اگر ڈیموکریسی سے مراد آزادی ہے تو اسلام کے ساتھ ڈیموریٹک کی قید لگانا درحقیقت اسلام کی توہین ہے کیونکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں آزادی موجود ہے۔ آپ نے فرمایا کہ (اس معنی میں) حقیقی ڈیموکریسی کی مثال حضرت امیر کے دور میں ملتی ہے جب آپ ایک یہودی کے خلاف مقدمے میں خلیفہ وقت ہونے کے باوجود عدالت میں پیش ہوتے ہیں اور قاضی فیصلہ آپ کے خلاف دیتا ہے اور آپ اس فیصلے کو قبول فرما لیتے ہیں۔
امام کے آثار کے مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ آپ جمہوریت کو ایک خاص انتخابی روش کے طور پر قبول کرتے تھے۔ آپ کے نزدیک اسلامی جمہوریہ کے نظام میں جمہوریت ایک قالب کی حیثیت رکھتا تھا کہ جس کے سانچے میں اسلامی حکومتی نظام کو ڈھالا گیا ہے۔ امام مغربی اور لبرل ڈیموکریسی کے سخت مخالف تھے لیکن آپ اسلامی ڈیموکریسی کے حامی تھے اور حضرت پیغمبر اکرم ۖ اور امیر المومنین کے دور حکومت کو اسلامی ڈیموکریسی کی بہترین مثال قرار دیتے تھے۔ لہذا یہ کہنا غلط ہے کہ امام ہر طرح کی جمہوریت کے مخالف تھے اور یہ کہنا بھی ناانصافی ہے کہ امام ہر طرح کی جمہوریت کے حامی تھے۔ اگر امام جمہوریت کے مطلق مخالف ہوتے تو آپ ایران میں جمہوریت نافذ نہ کرتے اور ولی فقیہ کو بھی''ولی منتخب مردم ''نہ کہتے (صحیفہ نور ج 21، صفحہ 129)۔ اسی طرح اگر امام ہر طرح کی جمہوریت کے حامی ہوتے تو وہ کبھی بھی مغربی جمہوریت پر تنقید نہ کرتے اور نہ ہی اسلامی جمہوریہ کے ساتھ ڈیموکریٹک کی قید لگانے کی مخالفت کرتے۔