انسانی زندگی کی ایک ناقابل تردید حقیقت موت ہے جس کے وقوع کے بارے میں ہر انسان کو یقین کامل حاصل ہے اس کے باوجود انسانوں کی اکثریت اس سے غافل اور بے اعتنا نظر آتی ہے گویا کسی کو موت آنی ہی نہیں!!
اسلام نے انسانوں کو موت کے بارے میں غور وفکر کرنے کی دعوت دیتے ہوئے انہیں اس ناقابل تردید حقیقت کا استقبال کرنے کیلئے آمادہ کیا ہے لہذا موت اور ابدی زندگی کے بارے میں ہر مومن اور مسلمان کو آگاہ ہونا چاہئے اور ان الہی واسلامی معارف کا مطالعہ کرنا چاہئے کہ جن میں موت کی حقیقت بیان کی گئی ہے۔
دوسرے علمائے دین اور حکمائے اسلام کی طرح امام خمینی(رح) کے بیانات اور قلمی آثار میں بهی موت کی حقیقت کو بہت ہی اہمیت دی گئی ہے۔ آپ بحیثیت الہی رہبر، آپ کا ہر عمل نہ صرف عوام کی دنیاوی حیات کی تعمیر کیلئے تها بلکہ ان کی اخروی حیات بهی ان کے مدنظر تهی، یہاں تک کہ آپ سیاسی فرائض کو بهی عبادت سمجه کر ادا کررہے تهے!
امام خمینی(رح) موت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ظاہری ودنیوی عالم سے باطن وملکوتی عالم کی طرف منتقل ہونے کا نام "موت" ہے یا ملکوتی وثانوی حیات کو "موت" کہتے ہیں جو ملکی (دنیوی) واولی حیات کے بعد آتی ہے۔ بہرحال (موت) ایک امر وجودی ہے بلکه ملکی وجود سے زیادہ کامل تر ہے کیونکہ ملکی ودنیوی حیات، مردہ طبیعی مادوں سے مخلوط ہے اور ان کی حیات زائل ہونے والا عَرَض ہے۔ اس کے برعکس ذاتی وملکوتی حیات ہے کہ جس مین نفوس کو استقلال حاصل ہوتا ہے وہ دار، دار حیات ہے اور لوازم حیات کا مقام ہے۔
مختصر یہ کہ حیات ملکوتی کہ جسے موت کہا جاتا ہے تا کہ سننے والوں کیلئے اس کا سننا بهاری نہ ہو۔
(چہل حدیث، ص323)
یہاں حضرت امام(رہ) "موت کے امر وجودی" ہونے کے بارے میں محقق مجلسی کے نظرئیے کا جائزہ لیتے ہوئے فرماتے کہ محقق مجلسی(رہ) کا کہنا ہے کہ:
آیہ شریفہ " الذی خلق الموت والحیات لیبلوکم ایکم احسن عملا " جس نے موت وحیات کو خلق فرمایا ہے تا کہ وہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں سے کون عمل کے لحاظ سے اچها ہے، دلالت کرتی ہے کہ "موت" ایک امر وجودی ہے۔
اس کے بعد اس طرح ادا کرتے ہیں:
مرنا، ہلاکت نہیں بلکہ حیات ہے، وہ عالم (آخرت) حیات اور زندگی ہے۔ یہ عالم (دنیا) مردہ ہے، مرنے سے نہ ڈریں اور ہم نہیں درتے، وہ لوگ ڈریں کہ جو مرنے کو فنا وہلاک ہوجانا سمجهتے ہیں اور موت کو انسان کا خاتمہ جانتے ہیں۔
(صحیفہ امام، ج7، ص184)
اور فرمایا:
ہم خیال کرتے ہیں کہ یہاں کی زندگی ایک قابل قدر چیز ہے اور یہاں نہ ہونا ایک قسم کا نقص ہے درحالیکہ یہاں کی زندگی، اس حقیقت کا پست ترین مرتبہ ہے کہ جو عالم غیب سے آئی ہے اور موت، اگر انسانی موت ہو تو اسی مرتبہ کی طرف رجوع ہے کہ جو پہلے سے موجود تها۔ البتہ مراتب اور شؤون مختلف ہیں۔
(صحیفہ امام، ج19، ص285)
حضرت امام خمینی(رہ) نے اپنے بہت سے بیانات اور قلمی آثار میں شہادت کی موت کے بارے میں تفصیلی بحث کی ہے اور اسے موت کی بہترین اقسام میں سے قرار دیا ہے۔ چونکہ امام(رح) ایک شہید پرور ملت کی رہبری کا فریضہ ادا کررہے تهے اور آپ کے پیروکاروں میں سب سے زیادہ تعداد شہداء اور ان کے محترم خاندانوں کی تهی لہذا شہادت اور عظمت شہید کے حوالے سے امام امت(رہ) کو بہت کچه کہنے کا موقع ملا ہے، مثال کے طورپر:
امام خمینی(رح) قرآن اور اہل بیت اطہار(ع) کی پیروی میں شہادت کو حیات جاوید قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
شہادت، موت نہیں بلکہ ایک حیات جاوید ہے۔ انسان حیات جاوید کیلئے ہی شہادت طلب کرتا ہے۔
(صحیفہ امام، ج9، ص451)
اور فرماتے تهے:
شہدا زندہ ہیں اور خداوند تبارک وتعالی کی بارگاہ میں "عند ربہم یرزقون" وہ خداوند کے حضور رزق حاصل کررہے ہیں(آل عمران/169) وہ اس وقت، خداوند تبارک وتعالی کی بارگاہ میں معنوی اور دائمی روزی حاصل کررہے ہیں۔ جو کچه ان کے پاس خدا کی طرف سے تها وہ انهوں نے خدا کے حضور پیش کردیا ہے۔ ان کے پاس ایک جان ہی تهی وہ انهوں نے خدا تعالی کی بارگاہ میں پیش کردی ہے اور خداوند تبارک وتعالی نے انهیں قبول کرلیا ہے اور قبول کررہا ہے۔
(صحیفہ امام، ج14، ص258)
ایک اور مقام پر امام خمینی(رح) شہداء کےگهرانوں سے خطاب کے دوران قرآنی آیت " ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء عند ربہم یرزقون " سے استناد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
راہ حق کے شہداء کا عظیم شرف یہ ہے کہ وہ عند الرب حیات رکهتے ہیں اور ضیافت اللہ میں وارد ہوچکے ہیں۔ شہداء کی زندگی اور روزی، بہشت کی زندگی اور روزی کے علاوہ ہے۔ یہ لقاء اللہ اور ضیافت اللہ ہے۔ کیا یہ وہی نہیں جو نفس مطمئنہ کے حامل افراد کیلئے فرمایا گیا ہے کہ: " فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی " (پس میرے بندوں کے زمرے میں داخل ہوجاؤ اور میری جنت میں داخل ہوجاؤ)(فجر/30،29) جس کا واضح ترین مصداق سید الشہداء سلام اللہ علیہ ہیں۔
(صحیفہ امام، ج18، ص325)
التماس دعــــا
سید رمیزالحسن موسوی کی تحریر سے اقتباس