امام خمینی نے ایک اسلام شناس فقیہ اور مصلح مفکر کے عنوان سے اپنی تمام فکر و توانائی عظیم اسلامی معاشرے کے نقائص و نقاصات کے پہچاننے میں صرف کردی خصوصا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایران اور روابط اجتماعی کی صلاح میں اپنی توانائی صرف کی، فردی اور اجتماعی نظام میں اخلاق کی خاص اہمیت ہے اور اس کا ایک مخصوص اور نمایاں مقام ہے۔
اس وجہ سے امام خمینی خود بھی اپنے علمی و اخلاقی آثار پر اپنے سارے علمی آثار میں بہت زیادہ توجہ دیتے تھے۔ ان کے اخلاقی آثار، آثار نظری اور آثار علمی دو حصوں میں قابل تقسیم ہیں امام کے آثار نظری وہ مطالب ہیں جن کو امام نے مباحث عرفانی یا اخلاقی نکات کے عنوان سے اپنی کتابوں اور اقوال میں بیان فرمایا ہے اور آثار علمی وہ طریقے اور روش ہیں جن کا استعمال امام نے اجتماعی اور سیاسی زندگی میں کیا ہے اور ہم ان سے اخلاقی نتیجہ اخذ کرتے ہیں ان دونوں کا حجم اتنا زیادہ ہے ہر ایک مقالہ نگار کو دوسرے کے بیان سے روکتا ہے۔
امام خمینی کی اخلاقی تفکر اور روش، دوسری روشوں کی ارزشمند خصوصیات سے متصف ہونے کے ساتھ، خود بھی دوسرے برجستہ اور منحصر بہ فرد نکات پر مشتمل ہے؛ کیونکہ امام خمینی کی تعلیمات میں عنصر اخلاق پہلے قدم میں کلام الہی سے ماخوذ ہے و بشدت تحت تاثیر مفاہیم قرآنی ہے۔ اور ہر جگہ قرآن کے ارد گرد نفس اور معصومین کے الہی کلام ایک عظیم ترین آبشار ہے جس سے امام سیراب ہوئے ہیں اور روح افزا فضا میں جلوہ افروز ہوئے ہیں۔ امام خمینی سیر و سلوک کے دستور العمل اورسفارشوں سے بہرہ مند ہونے کے علاوہ تجربہ، مجاہدت ، ریاضت اور تعبد پر بھی تکیہ کرتے ہیں۔ یہ تعلیمات موعظہ اور محبت آمیز نجویٰ سے لیکر بلیغ اور مختصر جملوں سے پر ہے بنام اخلاق عرفانی امام کے اخلاقی مکتب کی خصوصیت ہے۔ امام جس اخلاق کی تعلیم دیتے ہیں اور اپنی تحریر اور تقریر میں بیان فرماتے ہیں اور خود بخود عرفان تک پہونچنے کا وسیلہ اور مقدمہ ہے، امام خمینی کے تفکر، ان کی روش اور اس کی بعض خصوصیات کی طرف ایک اجمالی اشارہ ہے۔
جامعیت اور ہر پہلو پر نظر
’اسلام سب کچھ ہے۔ اسلام آیاہے کہ انسان درست کرے اور انسان سب کچھ ہے۔ انسان پوری دنیا ہے۔ جو انسان کا مربی ہے اس کو سارے عالم سے آشنا ہونا چاہیئے تا کہ انسان کو ان مدارج تک پہونچا سکے جن سے وہ خود واقف و آشنا ہے۔‘ (صحیفہ امام، ج ۸، ص350)
سادہ گوئی اور بے تکلفی
امام کے اخلاقی مکتب کی ایک دوسری خصوصیت اخلاقی تعلیمات بیان کرنے میں ان کی سادہ گوئی اور بے تکلفی ہے۔ بعض خیال کرتے ہیں کہ دشوار اور سخت الفاظ اور گنگ اور پیچیدہ اصطلاحات کا استعمال وفور علم کی نشانی ہے اور بر عکس سادہ و سلیس اور عام فہم روش کا استعمال کم علمی کی دلیل ہے۔
لیکن امام با وجودیکہ مرجعیت علی الاطلاق کے منصب پر فائز تھے اور انقلاب کی قیادت اور رہبری کی باگ ڈور آپ کے ہاتھ میں لئے تھے ان اوہام سے بے اعتناء ہوکر قرآن کریم کی تأسی اور شیوہ ابلاغ مبین کو اختیار کیا وہ روش جس کو انبیاء الہی نے بھی اختیار کیا تھا اور عوام الناس کی زبان کو معیار قرار دیا۔ امام سچ مچ حال و ذوق فہم مخاطب کا بھرپور خیال رکھتے تھے اور سامعین کو تلخی و ابہام و تکلف سے آزردہ نہیں کرتے ہیں۔
فروع سے نقطہ نظر اصول اخلاقی کی طرف توجہ
امام کی اخلاقی تعلیمات کی ایک خصوصیت ارکان و اصول اخلاق کی طرف توجہ دینا ہے، امام ایک ہوشمند معلم کی طرح نفسانی انحرافات اور مفاسد کی وجوہات کو تلاش کرتے ہیں اور ہر ایک کا سرچشمہ آدمی کے نفس کو پاتے ہیں، ناہنجاری کی بنیاد کو پیدا کرنے میں پیوستہ انسانیت کو متنبہ کرتے ہیں کہ امّ الرذائل ہے اور اخلاص کی دعوت دیتے ہیں کہ امّ الفضائل اور سرآمد کرامت ہے۔
امام خمینی کی نظر میں اخلاق کی محوریت
امام کی نگاہ میں اخلاقی صلاحیت ، برگزیدہ اور بہترین شائستگی ہے اور تہذیب نفس تمام اجتماعی اور انفرادی پہلوؤں کی اساس ہے۔ فردی زندگی سے لیکر خانوادگی، اجتماعی، علاقائی روابط یہاں تک کہ بین المللی معادلات کی تشکیل بھی اخلاقی اصول کے معیار پر ہونی چاہئے۔
امام بعثت کا مقصد تزکیہ اور ظلمتوں سے نور کی طرف لے جانا سمجھتے تھے اور ہمیشہ اپنی تحریروں اور تقریروں میں اس بات پر زور دیتے تھے کہ انبیاء انسانوں کی تربیت اور آدم سازی کے لئے آئے ہیں اور فرماتے تھے:
’’تمام انبیاء کی بحث و تربیت کا موضوع انسان ہے۔‘‘ (صحیفہ امام، ج ۸، ص ۳۲۴)