امام خمینی(رح) اور انقلاب اسلامی کے ریسرچ سینٹر کے صدر نے کہا: اگر بعض گروہ کچھ اقدامات انجام دیں اور ان تمام کو ولایت فقیہ کے نام پر لکھ دیں اور معاشرے میں مختلف مسائل جنم پانے کے باعث ہو اور ان کو ایسی شخصیت کے نام سے نسبت دے جس کی روح بھی ان مسائل سے بے خبر تھی، یہ ولایت فقیہ کی تخریب ہے، ولایت فقیہ سے دفاع نہیں۔
جماران کے مطابق: آیت اللہ عباسعلی روحانی نے ولایت فقیہ کو امام خمینی(رح) کے سیاسی فقہ کی ریڑی کی ہڈی اور جمہوری اسلامی کو امام(رح) کی توحیدی فکر و نظریہ کا میٹھا پھل عنوان کیا اور تصریح کی:
توحید کے دل سے جو تمام الٰہی ادیان کی بنیاد اور اساس ہے، دینی حکومت بطور نتیجہ نکالا جاتا ہے۔
جناب روحانی نے لبنانی روزنامہ "السفیر" کے روزنامہ گار کے ساتھ امام کے انٹرویو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: امام(رح) نے انقلاب اسلامی کے بنیادی اصول اور ڈھانچے کے بارے میں کیئے گئے ایک سوال کے جواب میں فرمایا: انقلاب اسلامی کی بنیاد اور اساس، توحید پر قائم ہے۔ اس اصل و قانون کا محتوی اور معنی معاشرے کے تمام شعبہ جات اور مراتب و مراحل پر سایہ ڈالتا ہے۔
اسی طرح امام(رح) نے اس کے بعد جتنے بھی انٹرویو دیئے، ان تمام میں اس نکتہ پر کہ انقلاب اسلامی، توحید پر استوار ہے اور تأکید کی: فردی اور اجتماعی فکر، عمل اور گفتار کے دائرہ میں غیر اللہ کی اطاعت و تبعیت نہیں ہونی چاہیئے۔ یہ نکتہ انبیاء(ع) کی دعوت کی اصل اور اساس ہے۔
انھوں نے سورہ یوسف کی آیت ۱۰۶ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا: امام(رح) کے تمام سیاسی تفکرات اور نظریات کا سرچشمہ عبودیت اور بندگی میں توحید کا پاس رکھنا ہے، جس کی دلنشین صدا جمہوری اسلامی کی صورت میں پوری دنیا میں گونجی۔ جنگیں، صلح و صفائی، روابط و تعلقات، قتل و ایذائیں، تکلیفیں اور ۔۔۔ سب کے سب اس اصل میں، یعنی اساس توحید سے برآمد ہوتا ہے۔ عبودیت اور بندگی کی بنیاد و اساس توحید پر ہونے کی بناپر، ہم غیر اللہ کو معاشرے سے دور پھینکتے ہیں اور اللہ تعالٰی کو معاشرے پر حاکم کرتے ہیں اور یوں انقلاب اسلامی وجود میں آتا ہے۔
انھوں تصریح کی: انتخاب کے نظریہ کی بناپر، عوام کا ووٹ شرط اور مشروعیت کی علت تامہ ہے؛ جس کے تحت اگر کوئی فقیہ عوام کی عام تائید اور ووٹ کی حمایت سے محروم ہو، وہ زبردستی اور طاقت کے زور پر عوام پر حکومت نہیں کرسکتا۔
اگر امیر المومنین(ع) کے ساتھ بھی عوام کی حمایت اور ووٹ نہ ہوتا، آپ بھی کبھی بھی حکومت کےلئے تلوار نہیں اُٹھاتے۔ عصر غیبت میں بھی انتخاب کے مسئلہ میں اگر فقیہ کے پاس منصب ولایت فقیہ پر فائز ہونے یا باقی رہنے کےلئے عوام کی حمایت اور ووٹ نہ ہو، اس کی ولایت شرعی طورپر بے معنی اور ہیچ ہے۔
حجت الاسلام و المسلمین روحانی نے تاکید کی: جو شخص کہتا ہے: اگر ولی فقیہ نے کہہ دیا کہ دہی کالی ہے، اس کے بعد ہم دہی کو سفید نہیں، بلکہ کالی دیکھیں گے!! اس نے اس بات کے ذریعے ولایت فقیہ سے دفاع نہیں، بلکہ ولایت فقیہ کی تخریب کی ہے۔
انھوں نے تاکید کی: کبھی دشمن حماقتوں، حرص، چاپلوسی اور خوف سے اندر گھسنےکےلئے استفادہ کرتا ہے۔ صدر اسلام کے زمانے سے نفوذ پانا اور اندر گھسنا، ایک مسئلہ کے طورپر پیش نظر رہا ہے۔ طول تاریخ میں نفوذ پانے کےلئے یہی اندرونی حماقتیں سب سے کارآمد ترین اور موثر ترین حربے کے طورپر استعمال ہوتیں رہیں ہیں۔ آپ ضرور اس شخص پر جو غلو کے ہتھیار سے ولایت فقیہ سے دفاع کرتا ہے شک کریں۔
اگر کوئی شخص ایسی کوئی بات کرتا ہے کہ امام خمینی(رح) بھی جو نظریہ ولایت فقیہ کے بانی ہیں ایسا دعوی نہیں کرتے تھے، رہبر بھی ایسا دعوی نہیں رکھتے، اگر آپ نے کسی ایسے شخص کو دیکھا جو اس طرح برتاؤ کرتا ہے کہ گویا علی بن ابی طالب(ع) مسندِ ولایت پر بیٹھے ہیں، اس بارے میں شک کرنا چاہیئے۔
آیت اللہ روحانی نے اپنی گفتگو کے اختتام میں اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ شورائے نگہبان کے نمایندے عوام کے وکیل ہیں، کہا: شورائے نگہبان کے ماہرین کی انکوائری اسمبلی کے کمیشن کی ذمہ داریوں میں سے ایک ہمیشہ رہبری اور ولایت فقیہ کی مصادیق پر مستقل طورپر پے در پے نظارت رکھنا ہے۔ اللہ تعالٰی نے کسی صاحب قدرت کو کسی نظارت کے بغیر خلق نہیں کیا ہے اور صرف جس سے سؤال نہیں کرسکتے، وہ اللہ سبحانہ و تعالٰی کی ذات ہے۔
ملک چلانے کے سب سے اعلی ترین ادارہ سے نظارت کو ختم کرنا، ایک غیر مسئول کو اللہ تعالٰی کے ساتھ بیٹھانا ہے؛ لایسئل، صرف اللہ تعالٰی کی ذات سے مختص ہے۔
ماخذ: جماران خبررساں ویب سائٹ