عاشورائے حسینی پر امام خمینی کی سیاسی نگاہ

عاشورائے حسینی پر امام خمینی کی سیاسی نگاہ

یزید، امت مسلمہ کو یرغمال بناتے ہوئے اسلامی دنیا کی دولت کو اپنے اور اپنے اطرافیوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کررہا تها، لہذا امت اسلامی کی مصلحت اور منافع کی حفاظت کیلئے قیام ضروری تها۔

جماران: حجت الاسلام والمسلمین محمد سروش محلاتی نے "عاشورا، امام خمینی(رح) کی سیاسی نگاہ کے آئینے میں" کے عنوان کے تحت اپنے تحریر کردہ مقالے میں حضرت امام خمینی کی نظر میں عاشورا کے سیاسی پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے سیاسی زاویے سے  اسلامی معاشرے کو حاصل ہونے والے عاشورا کے اہداف کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے اور ان اہداف کو درج ذیل موارد میں قلمبند کیا ہے۔

عدالت اور آزادی کی خاطر قیام کی اہمیت

پیغمبر اسلام(ص) (جو عدالت اور آزادی کے بانی تهے) کی رحلت کے بعد بنی امیہ کی جانب سے جابر اور  ظالم حکمرانوں کے ہاتهوں اسلام کو تحریف کرنے کی سازش کو حضرت سید الشہدا امام حسین علیہ السلام نے خاک میں ملانے کیلئے عاشورا کو  معرض وجود میں لایا۔ اور اسی ضمن میں امام عالی مقام  علیہ السلام نے تصریح کرتے ہوئے فرمایا: "اگر انسان کسی ظالم حکمران کو لوگوں پر حکمرانی کرتے ہوئے دیکهے تو اس کے خلاف قیام کرنا ضروری ہے"۔

جابر حکمران کے خلاف قیام جائز ہے

باوجود اسکے کہ یزید پوری سلطنت کا حاکم مطلق تها، اس کے خلاف امام حسین علیہ السلام کے قیام کی وجہ کیا تهی؟

یزید (جو کہ اپنے کو پیغمبر اسلام(ص) کا خلیفہ کہا کرتا تها) کے خلاف امام حسین علیہ السلام کو قیام کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

اس کی وجہ یہ تهی کہ یزید، امت مسلمہ کو یرغمال بناتے ہوئے اسلامی دنیا کی دولت کو اپنے اور اپنے اطرافیوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کررہا تها، لہذا امت اسلامی کی مصلحت اور منافع  کی حفاظت کیلئے قیام ضروری تها۔

(ظالم کے خلاف قیام کیلئے) قدرت کا نہ ہونا عذر  کا باعث نہیں بنتا

جس وقت امام حسین علیہ السلام نے یزید کے خلاف قیام کیا، اس وقت امام علیہ السلام کے  لشکر میں شامل افراد کی تعداد بہت ہی کم تهی جبکہ دوسری جانب یزیدی لشکر میں شامل سپاہیوں کی تعداد بےشمار تهی، یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ افرادی قوت میں کمی کو ظالم کے  خلاف قیام کیلئے عذر کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا، امام عالی مقام نے  اپنے اس عمل سے  ہمیں یہ بتایا کہ "جب اپنے زمانے کا جابر وظالم شخص مسلمانوں پر حکومت کرنے لگے تو اس کے خلاف قیام ضروری ہے اگرچہ اس کے مقابل میں ہماری تعداد کم ہی کیوں نہ ہو ، ہمیں قوت افرادی  کی قلت کے سبب موت سے ڈر کر دشمن سے مرعوب نہیں ہونا چاہیئے، یقیناً  انسان کو عالی  ہدف کے حصول میں سختیوں سے سامنا کرنا پڑهتا ہے۔    

معاشرے  کے مفادات شخصی مفادات پر  مقدم ہے

تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت کا مقصد معاشرے کی اصلاح ہے اور انبیاء کرام علیہم السلام کی نظر میں شخص کو معاشرے پر قربان ہونا چاہیَے، اگرچہ وہ شخصیت کے لحاظ سے معاشرے کی سب سے بڑی فرد ہی کیوں نہ ہو لیکن جب اجتماعی اور شخصی مفاد میں تعارض کی صورت میں اجتماعی مفاد کو ہرحال میں مقدم کرتے ہوئے فرد کو  اجتماع پر قربان ہونا ہوگا اور  اسی تناظر میں امام حسین علیہ السلام نے اپنی اور اصحاب کی قربانی پیش کی تاکہ معاشرے کی اصلاح ہوسکے۔

الہی حکومت  کا قیام 

الہی ہدف کے تحت امام حسین اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی یہ کوشش رہی ہے کہ جابروں اور ستمکاروں کے مقابلے میں معاشرے کے اندر عدالت پر مبنی حکومت قائم کی جائے۔

 

جاری ہے۔۔۔

ای میل کریں