ان چہروں کے نیلم مرجاں / جگ مگ جگ مگ، رخشاں رخشاں

ان چہروں کے نیلم مرجاں / جگ مگ جگ مگ، رخشاں رخشاں

اگر ایرانی قیادت عالم اسلام کی محبوس فکر اور پا بہ زنجیر جذبات کو آزاد کرانے کیلئے ان (مسلم) ممالک کے عوام کی ہمنوائی کررہی ہے تو اس کے پس پشت رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ خمینی کی فکر اور رہنما ہدایات اور اس حکمت عملی کا بڑا دخل ہے.

آج سے تین دہائی قبل جب ایرانی قوم کے برفاب بن چکے خون جگر میں حرارت اور آہن پوش ہوچکی آنکهوں سے پردے ہٹا کر انہیں بصیرت عطا کرنے والے انقلاب کی دهمک سےشاہ پہلوی کے تاج وتخت لرز رہے تهے اور مملکت ایران سے رخت سفر بانده کر امریکی کٹه پتلی شاہ نے امریکہ کا رخ کیا تها تو شاید کسی کے وہم وگمان میں بهی یہ نہ ہوگا کہ ایران کے کامیاب اسلامی انقلاب کے اتنے دور رس اثرات مرتب ہوں گے کہ کئی مسلم ممالک کے عوام کیلئے مستقبل میں نمونہ عمل بن جائیں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ ان مسلم ممالک کے عوام میں جذبہ حریت کو بیدار کرنے میں انقلاب اسلامی ایران کا شعوری یا غیر شعوری سطح پر ایک اہم رول رہا ہے اور آج بهی اگر ایرانی قیادت عالم اسلام کی محبوس فکر اور پا بہ زنجیر جذبات کو آزاد کرانے کیلئے ان ممالک کے عوام کی ہم نوائی کررہی ہے تو اس کے پس پشت رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ خمینی کی فکر اور رہنما ہدایات اور اس حکمت عملی کا بڑا دخل ہے کہ جس نے استعماری طاقتوں سے نبرد آزما ہونے والوں کو مژدہ کامیابی سنایا۔

فیض احمد فیض نے اپنی مشہور نظم "ایرانی طلبا کے نام" میں ایران کی نوجوان نسل کے چہروں کو نیلم ومرجاں سے تشبیہ دی ہے، انہیں جگ مگ جگ مگ اور رخشاں رخشاں کہا ہے۔ ان نیلم ومرجاں چہروں نے اپنے رہبر یعنی حضرت آیت اللہ خمینی کی صدائے انقلاب پر لبیک کہتے ہوئے تین دہائی قبل جو عظیم قربانیاں پیش کیں وہ آج بهی عالم اسلام کے حریت پسندوں کے خون کو گرما دیتی ہیں اور باطل کے ایوانوں میں زلزلے پیدا کر رہی ہیں۔ پر امن مقاصد کیلئے نیوکلیائی توانائی کے حصول میں کوشاں ایران اگر آج بهی استعماری طاقتوں کی نگاہ میں کهٹک رہا ہے تو اس کا سبب خوف کی نفسیات ہی ہے۔ یہ خوف ایران کی اس نوجوان نسل سے ہے جس نے 32 سال قبل ایران میں مطلق العنان حکومت کا تختہ پلٹ دیا تها اور ایرانی غیرت کو چیلنج کرنے والے امریکہ کو 52 یرغمالیوں کے معاملے میں جهکنے پر مجبور کردیا تها۔ آج اس بوکهلاہٹ اور خوف کی گرفت میں صرف امریکہ اور یورپ ہی نہیں بلکہ مسلم ممالک کے وہ تمام حکمراں بهی ہیں کہ جو اپنے عوام کی گفتار پر تعزیریں لگاتے رہے۔

اگر ہم انقلاب اسلامی کے بعد کی تین دہائیوں کے ایران پر نگاہ ڈالیں تو یہ واضح ہوجائے گا کہ وہ تمام طاقتیں کہ جو اس انقلاب کی کامیابی پر شکوک وشبہات ظاہر کرتی رہیں، وہ تمام عناصر جو ایران کی ترقی کا عمل رک جانے کی پیش گوئیاں کرتے رہے اور ایران کو دہشت گردی وانتہا پسندی کی آماجگاہ بتا کر اس کے خلاف نہ صرف عالم اسلام بلکہ پوری دنیا میں باطل پروپیگنڈہ کرتے رہے بالآخر اپنے مکروہ مقاصد میں ناکام ہوئے اور آج خارجی سطح پر ایران دنیا بهر کے مسلمانوں خصوصاً اپنے جابر حکمرانوں کے ظلم واستحصال کے شکار لوگوں کیلئے باعث تحریک ہے تو داخلی سطح پر اس نے تعمیر وترقی کی وہ منازل طے کی ہیں جن پر دنیا کو حیرت اور ایرانی عوام کو فخر ہے۔ یہ حصولیابی اس صورت میں ہوئی ہے کہ جب ایران کے پر امن نیوکلیائی پروگرام سے عالمی برادری کو خوفزدہ کر کے ایران کو الگ تهلگ کرنے کی کوشش جاری ہیں، جب ایران پر اقتصادی پابندیاں نافذ ہیں اور ترقی کی رفتار پر بریک لگانے کیلئے تمام ناجائز حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔

ایران کے ناقدوں کیلئے یہ حقائق چشم کشا ہیں کہ تمام نامساعد حالات کے باوجود اس ملک میں شرح خواندگی 80 فیصد سے زیادہ ہے جو نہ صرف ترقی پذیر بلکہ کئی ترقی یافتہ ممالک کیلئے بهی باعث حیرت ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی کہ ایران خواندگی کے معاملے میں کافی بہتر پویشن میں ہے، بلکہ قابل غور امر یہ ہے کہ حصول تعلیم کے اس رجحان میں بدلتے ہوئے زمانے کے تقاضوں کا خاص خیال رکها گیا اور سائنسی وتکنیکی تعلیم کے حصول پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ یہ بات بهی قابل ذکر ہے کہ سائنسی ترقی کرنے والے 31 اہم ممالک میں ایران، چین، ہندوستان وبرازیل ہی ایسے ترقی پذیر ممالک ہیں کہ جن کی Scientific Productivity یعنی سائنسی شرح نمو 97.5 فیصد ہے۔ مذکورہ چار ممالک میں سب سے زیادہ نامساعد حالات اور امریکہ ومغرب کی فتنہ پروری اور سازشوں کا سامنا ایران کو ہی کرنا پڑ رہا ہے۔ اس اعتبار سے ایران کی کاوشوں کا جائزہ لیں تو واقعی خوشگوار حیرت ہوتی ہے! حد تو یہ ہے کہ خود امریکی حکومت کے ذریعہ 2010 میں جاری ایک رپورٹ میں یہ اعتراف کیا گیا کہ ایران کی سائنس وانجینئرنگ کے شعبے میں شرح ترقی سب سے زیادہ ہے! یہ الگ بات ہے کہ امریکی قیادت ایران کی سائنس وانجینئرنگ کے شعبے میں کی گئی ترقی کو عالمی امن کیلئے خطرہ بتا کر اس ترقی کو روکنے کی سازشیں کر رہی ہے۔

 

بشکریہ سراج نقوی صاحب کے

ماخذ: عالمی سہارا 19/فروری 2011ء

ای میل کریں