مفسر کے جذبات کے پہلو سے تفاسیر سے آگاہی اہم ترین حصے کا تعلق ان تربیتی، روحانی اور اخلاقی خصوصیات سے ہے جو انسان کے ذہن، نظرئیے اور روش تفسیر پر واضح اور پوشیدہ طورپر اثرانداز ہوتی ہیں ۔ ہر تفسیر کے جائزے کے وقت صحت وقبول کا معیار اور کلی طورپر نظریات کے بارے میں فیصلے کا معیار مفسر کی عقلانیت اور اس کے دلائل وبراہین ہوتے ہیں ۔ کسی جملے یا آیت کے بارے میں مفسر نے اپنے نظرئیے کے اثبات میں آیات وروایات یا قابل قبول دلائل پیش کئے ہوں تو اس کا نظریہ قبول کیا جاتا ہے اور اگر اس کے استدلال میں نقص وعیب ہو تو اس کو مسترد کردیا جاتا ہے لیکن بہرحال، مفسر کی نفسیات تفسیر کے پس پردہ اپنا کام کر رہی ہوتی ہے۔
مثلاً اگر کوئی روحی اور تربیتی لحاظ سے دقت نظر رکھتا ہے اور اس کے پاس دلیل اور علمی شجاعت ہے یا پھر نئے نظریہ کو سامنے لانے کے درپے ہے یا کثرت جذبات اور نئے نظریات ہیں تو یہ تمام چیزیں اس کے تفسیری رجحان اور ادراک پر اثر انداز ہوتی ہیں ۔
علم تفسیر کا تعلق صرف دلائل وبراہین سے نہیں ہوتا ہے، بلکہ مفسر کے جذبات اور اس کی نفسیات کے ساتھ بھی اس کا تعلق ہوتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ کسی متن کا فہم اور اس کی تفسیر مفسر کے ذہنی مفروضوں اور فکری رجحانات سے دور ہونی چاہیے اور تفسیر میں اس کا مذہبی تعصب ظاہر نہیں ہونا چاہیے، بلکہ تفسیر کو اپنے زمانے کے عرفی عقائد سے بھی دور ہونا چاہیے، کیونکہ مفسر جس وقت تک اپنی روزمرہ ثقافت کے حصار میں رہے گا، قرآن کے حقائق کے فہم سے دور رہے گا، اس وقت کہا جاسکتا ہے کہ مفسر ذہنی مفروضوں سے دور ہے جب ہمیں اس کے جذبات اور شخصیت کی خصوصیات کا علم ہو اور دلائل کے جائزے سے بڑھ کر ہمیں اس کی تفسیر کے پس منظر سے بھی با خبر ہونا چاہیے، کیونکہ بہت سے مواقع پر مفسر کے تجزیہ، اس کے موقف حتی اس کے استدلال وبرہان کا سرچشمہ غیر شعوری انداز میں اس کے ادراک وذہنیت کی نچلی تہوں میں موجود امور ہوتے ہیں ۔(چہل حدیث،صفحہ ۶۵۹)
بہت سے مفسرین اور ماہرین قرآن نے ایسے علم کی بات کی ہے جو علم ہونے سے پہلے ادب اور پاکیزگی ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ:
مفسر کیلئے ضروری ہے کہ وہ تفسیر میں اس کا حامل ہو تاکہ ان مسائل سے دور رہے بعض اوقات خدا داد علم سے مراد ذوق ہوتا ہے۔ امام خمینی (ره)ایک جگہ پر اشارہ کرتے ہیں ۔( صحیفہ امام، ج ۱۷، ص ۴۵۷) اور بعض اوقات اس سے مراد ایسی نورانیت ہوتی ہے جس کی بنا پر مفسر حبّ وبغض، عقائدی تعصب اور فکری روابط سے بالاتر ہو کر قرآن کے بارے میں غور وفکر کرتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ مفسر کس حد تک اپنے خاص جذبات، خاص طورپر ان رجحانات سے کہ جن کا وہ تعلیم وتربیت اور خاص مذہبی ماحول میں زندگی گزارنے کی بنا پر غیر شعوری طورپر حامل ہوجاتا ہے، دور رہ کر عمل کرسکتا ہے، کیونکہ ان اصول وقواعد سے قطع نظر کہ جن کا مفسر اپنے آپ کو پابند سمجھتا ہے، مفسر کا مطالب کا من پسند انتخاب، اس کا ایک مسئلے پر توجہ دینا اور دوسرے پر توجہ نہ دینا یا کسی خاص رجحان اور نظرئیے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا قرآن کی بہت سی تفاسیر کی ایک ناگزیر حقیقت ہے۔ اس لیے ہم مجبور ہیں کہ تفسیر قرآن میں مفسر کی شخصیت کی تاثیر کے علاوہ اس بات کو بھی قبول کریں کہ گوناگوں معلومات عقائد، اخلاق اور خاص نفسیاتی امور تفاسیر کے گوناگوں ہونے کا موجب بنتے ہیں اور ہر تفسیر اپنی مخصوص پہچان رکھتی ہے۔