مفسر قرآن کے سلسلے میں امام خمینی (ره)کا اصول اور مبنا یہ ہے کہ قرآن شناس انسان محجوب ومقید ہے، چونکہ وہ عالم مادہ وناسوت میں زندگی بسر کررہا ہے اور اس جہان کے پردوں جیسے غرائز وخواہشات نفسانی نے اس کو تمام اطراف سے گھیر رکھا ہے اس لیے وہ قرآن کے بلند وبالا معانی کو بخوبی درک نہیں کرسکتا۔ البتہ یہ انسان قرآن کے ظاہری مفاہیم اور عام پیغامات کو سمجھ سکتا ہے، کیونکہ قرآن، فہم بشر کے مطابق نازل ہوا ہے اور اس طرح نہیں ہے کہ قرآن ان الفاظ کے ساتھ قابل فہم نہ ہو۔لیکن یہی قرآن انسان کے فہم کے مطابق نازل ہوا ہے یعنی قرآن بلند وبالا معانی سے تنزل کر کے اس مقام تک پہنچا کہ جہاں انسان اس سے اپنا رابطہ بر قرار کرسکتے ہیں اور ہدایت پاسکتے ہیں ۔ امام خمینی (ره)اس بارے میں صریحاً تحریر فرماتے ہیں :
’’ یہ عظیم الٰہی کتاب کہ جو عالم غیب اور قرب ربوبی سے نازل ہوئی ہے اور ہم مہجورین اور زندان طبیعت کے قیدیوں کی رہائی اور خواہشات نفسانی اور آرزوؤں کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے قیدیوں کیلئے الفاظ اور کلام کی صورت میں ڈھل کر آئی ہے، رحمت مطلقہ الٰہیہ کا عظیم ترین مظہر ہے‘‘۔ (آداب الصلاۃ، ص ۶۶)
اس تجزیے کے مطابق، قرآن کے فہم میں مشکل وپیچیدگی نہیں ہے، بلکہ یہ انسان ہے کہ جو زندان میں قید ہے اور اس کی قرآن تک دسترس نہیں ہے۔
اسی طرح امام خمینی (ره)ایک اور مقام پر تحریر کرتے ہیں کہ الٰہی تکوینی کتاب اور قرآن ناطق ربانی بھی دنیائے غیب اور مخفی الٰہی مخزن سے ستر ہزار پردوں کے ساتھ نازل ہوا ہے تاکہ اس الٰہی تدوینی کتاب کو اٹھائے اور اسے دوسرے انسانوں تک پہنچائے، وہ انسان جن کی نفوس طبیعت کے اس جیل میں الٹے ہیں اور جو اس دنیا میں اجنبی اور ناآشنا ہیں ۔ اس قرآن کو ایسے ہی لوگوں کی رہنمائی کرنا ہے۔اس وجہ سے انسان اپنے مادی پہلو اور ناسوتی ہونے کے سبب محجوب ہے اور قرآن کے پیغام اور انسان کے مابین بہت سے پردے حائل ہیں یا یوں کہیں کہ انسان ایک ایسے زندان میں قید ہے اور باہر کی دنیا کی معلومات سے محروم ہے۔
امام خمینی (ره) پیغمبر اکرم ﷺ اسلام کے مقام ضیافت اﷲ تک پہنچنے اور قرآن کی بیکراں نعمت سے آپ(ص) کے استفادے کا سبب دنیا سے آپ(ص) کی بے اعتنائی اور منہ موڑ لینے کو قرار دیتے ہیں ، کیونکہ یہ اصول معنوی ریاضت کی بنیاد ہے۔ اسی وجہ سے امام خمینی (ره)محجوبیت کا محور اسی حصے میں قرار دیتے ہیں ۔
’’پیغمبر اسلام ﷺ نے سالہا سال روحانی ریاضتیں انجام دیں تب آپ (ص) اس مقام تک پہنچے کہ ضیافت الٰہی کے لائق قرار پائیں اور اہم ترین نکتہ دنیا سے روگردانی ہے‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۱۷، ص ۴۹۰)
حقیقت انسان سے متعلق اس نظرئیے اور جائزے کی بنیاد پر، انسان اور قرآن کے درمیان فاصلہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے بارہا آپ نے قرآن کے راز ہونے کی بات کی ہے:
’’قرآن راز ہے، رازوں کے درمیان چھپا ہوا راز ہے، اس کا یہاں تک نازل ہونا ضروری تھا کہ نچلے ترین انسانی مراتب تک پہنچ جاتا‘‘۔(تفسیر سورۂ حمد، ص ۱۶۵)
البتہ امام خمینی (ره)کے نزدیک اس تجزئیے کے یہ معنی نہیں کہ قرآن قابل فہم نہیں ہے، کیونکہ جیسا کہ اس سے پہلے بھی ہم کہہ چکے ہیں کہ آپ نے صراحت سے کہا ہے:
’’اگر قرآن کے عرفی معانی مراد ہوں تو ان عرفی مطالب ومعانی کو سب لوگ سمجھ سکتے ہیں ‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۱۹، ص ۷)
قرآن کے راز ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ قرآن مبہم ہے اور سمجھ میں نہیں آتا ہے، بلکہ امام خمینی (ره) کی نظر میں قرآن کے عظیم مطالب لوگوں کو سمجھانے کیلئے اس حد تک نازل کئے گئے اور نیچے لائے گئے کہ ذوق کی اس سطح اور فہم عرفی تک ان کو منتقل کرنے کیلئے مجبوراً مثالیں بیان کرنا پڑیں۔ اسی سبب سے خدا نے اپنی پہچان اونٹ کے ذریعے کروائی ہے { أَفَلاٰ یَنْظُرُونَ اِلَی الإبِلِ کَیْفَ خُلِقَت}(’’کیا وہ لوگ اونٹ کی خلقت پر نگاہ نہیں کرتے کہ کس طرح اسے خلق کیا گیا ہے‘‘ غاشیہ ؍۱۷)
یہ بڑے انسانوں کیلئے افسوس کی بات ہے کہ وہ بڑے حقائق کی شناخت اور ان سے آگاہی کیلئے اونٹ، سورج، چاند، زمین وآسمان سے متوسل ہوں ، اسی لیے امام خمینی (ره)تحریر فرماتے ہیں :
’’جب خدا کی پہچان اونٹ کے ذریعے کروائی جا رہی ہے تو واضح ہے کہ ہمارا کیا مرتبہ ہے۔ ہمارا مرتبہ حیوان کا مرتبہ ہے اور ہم جو معرفت اس سے حاصل کرتے ہیں ، کیسی معرفت ہے؟ نہایت ناقص ہے‘‘۔(تفسیر سورۂ حمد، ص ۱۳۷)
تفسیر سے متعلق حقیقت قرآن اور انسان کے بارے میں ایسے تجزئیے کا نتیجہ محجوبیت کے علاج اور انسان کے راستے سے رکاوٹوں کو ہٹانے کی تجویز ہے۔ اگر انسان اپنے قلب کو انوار خدائی سے روشن کرلے اور کلام الٰہی کو حاصل کرنے کیلئے ضروری طہارت وپاکیزگی کا حامل ہوجائے تو وہ قرآن تک پہنچ کر اس کے باطنی نور سے فیضیاب ہوسکتا ہے۔ اسی لیے امام خمینی (ره)سیر وسلوک کو شرط تفسیر اور وصول حق کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں اور دعائے سحر کی شرح میں بیان کرتے ہیں ۔