غربت کے خاتمے اور اسلامی عدالت پسندی کے سلسلے میں امام خمینی(ره) کے نظرئیے کی بھر پور وضاحت صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب آسائش کے بارے میں آپ کا نظریہ مکمل طور پر معلوم ہوجائے۔ اس نکتے کی جانب توجہ کرنا اس اعتبار سے اہمیت رکھتا ہے کہ غربت کے خاتمے ، اسلامی عدالت پسندی اور نادار طبقے کی آسائش کی ضرورت کو زیر بحث لاتے ہوئے فطری طور پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا غربت کے خاتمے کا مطلب یہ ہے کہ غریب لوگ امیر بن جائیں اور اس آسائش کی کوئی حد نہیں ہے؟ یہ غربت کے خاتمے اور عدالت پسندی کے موضوع کے حوالے سے ایک بنیادی سوال ہے، کیونکہ اگر جواب یہ ہو کہ مقصد غریبوں کو امیر بنانا ہے اور ہمیں اس دن کی توقع رکھنی چاہئے جب محروموں کو بہت زیادہ آسائش میسر ہوجائے گی اور ہم آسائش کے لئے کسی حد کے بھی قائل نہ ہوں تو پھر ہمیں اس بڑے اور بنیادی سوال کا جواب دینا ہوگا کہ اگر بے راہ روی ، زوال ، اغیار پر انحصار اور طاغوتوں کے مقابلے سے روگردانی کا سبب سرمایہ داروں اور دولت پرستی ہے تو پھر غریب کو امیر بنانے اور آسائش کے لئے کسی حد کے قائل نہ ہونے کا اس کے علاوہ اور کیا نتیجہ برآمد ہوگا کہ غریب لوگ امیر بننے کے بعد مذکورہ غلط راستوں پر چل پڑیں گے ؟ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اگر مال و دولت اور آسائش کی کوئی حد مقرر نہ ہو تو یہ چیزیں دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے بغیر حاصل ہی نہیں ہوتی ہیں ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دشوار گزار راستہ طے کرنا محروم عوام کی خدمت کی بجائے انہیں بری اخلاقی صفات سے بھری وادی میں دھکیلنے اور معنویت سے دور کرنے پر منتج ہوگا۔
خوش قسمتی سے امام خمینی(ره) نے اس بنیادی سوال کا جواب واضح طور پر دیا ہے ۔ آپ دوسری ہر چیز سے قبل اسی کو اصولی اور بنیادی طور پر زیر بحث لائے ہیں اور آپ نے نکتے کی یاد دہانی کراتے ہوئے کہ انسان کی آرزوؤں کی کوئی حد نہیں ہے اور یہ چیز بنی نوع انسان کے لالچ کا سبب بنتی ہے بار ہا عوام، حکام اور علما کو سادہ زندگی بسر کرنے کی تاکید کی ہے اور آپ نے سادہ زندگی سے روگردانی کے برے نتائج کو شدید انتباہات کی صورت میں بیان کیا اور صراحت کے ساتھ کہا کہ ’’عام لوگ زیادہ توقعات نہیں رکھتے ہیں وہ درمیانے درجہ کی زندگی پر قانع ہوتے ہیں ‘‘۔ اس کے علاوہ اس حقیقت کی وضاحت کرتے ہوئے کہ فقط وہی لوگ غریبوں کے حال کا احساس اور ناداروں کے مسائل کا ادراک کر سکتے ہیں جنہوں نے خود غربت کا سامنا کیا ہو اور اس کا مزہ چکھا ہو۔ آپ نے پارلیمنٹ کے اراکین، انتظامیہ اور عدلیہ کے حکام اور مسلح افواج کو تاکید کی کہ درمیانے درجے کی زندگی کو اپنائیں خدا تعالیٰ اور معنویت کی جانب ان کی توجہ برقرار رہ سکے اور ان میں حضرت موسیٰ کی مانند کہ جنہوں نے دنیا سے بے اعتنائی اور گذرئیے کی سی سادہ زندگی اختیار کرنے کی بنا پر فرعون کا مقابلہ کیا اور اس پر غلبہ پایا، منہ زور طاقتوں کے مقابلے میں ڈٹ جانے کی صلاحیت پیدا ہو۔ آخر میں آپ صراحت کے ساتھ فرماتے ہیں : ’’ہمیں انسانوں کی تربیت کرنا ہے پیٹوؤں کی نہیں ، اسلام انسان بنانا چاہتا ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ خود مختاری کا تحفظ ہو اور دنیا کو پیش نظر رکھنے سے خود مختاری کا حاصل ہونا ممکن نہیں ہے‘‘۔ (فریاد برائت ، ص ۲۵)
امام خمینی(ره) نے ایران کی دوسری اسلامی پارلیمنٹ کے اراکین کو جو پیغام دیا اس کا درج ذیل اقتباس آسائش کے مفہوم اور تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے سادہ زندگی کو ترک کرنے کے منفی نتائج کے گہرے جائزے پر مشتمل نہایت خوبصورت اور عمیق ترین کلام ہے:
’’اگر آپ لوگ چاہتے ہیں کہ بلا خوف و ہراس باطل کے مقابلے پر ڈٹ جائیں ، حق کا دفاع کریں ، سپر طاقتوں ، ان کے جدید ترین ہتھیاروں اور شیطانوں اور ان کی چالوں کا تمہارے دلوں پر کوئی اثر نہ ہو اور وہ تمہیں میدان سے بھاگنے پر مجبور نہ کرسکیں تو سادہ زندگی گزارنے کی عادت اپنائیں اور اپنا دل مال و دولت اور جاہ و منصب میں نہ لگائے۔ اپنی قوموں کے لئے بڑی خدمات انجام دینے والی بڑی شخصیات نے عموماً سادہ زندگی گزاری اور دنیا کی زرق و برق سے بے اعتنائی برتی جو افراد گھٹیا حیوانی اور نفسانی خواہشات میں جکڑے ہوئے تھے یا اب جکڑے ہوئے ہیں وہ ان خواہشات کی تکمیل کے لئے ہر طرح کی ذلت اور رسوائی قبول کرنے پر تیار رہتے ہیں ۔ یہ افراد طاقت اور شیطانی طاقتوں کے سامنے خشوع و خضوع سے کام لیتے ہیں جبکہ کمزور عوام کو ظلم و ستم کا نشانہ بناتے اور ان کے بارے میں منہ زوری سے کام لیتے ہیں جبکہ آزاد منش ان کے برخلاف ہوتے ہیں ، کیونکہ جاہ و جلال اور اسراف پر مبنی زندگی کے ساتھ انسانی اور اسلامی اقدار کا تحفظ نہیں کیا جا سکتا ہے‘‘۔ (فریاد برائت ، ص 26)