سید الشہداء کی ۶۱ہجری قمری میں حیات بخش تحریک اپنی الہی، سیاسی اور انسانی حقیقت اور اہداف و مقاصد کی خاطر ہمیشہ آزادی کے سالکوں اور حقیقی دینداروں کے لئے الہام بخش رہی ہے اس حسینی انقلاب کے دریائے معارف سے ہر مفکر اور طالب حقیقت نے ہر عصر اور ہر زمانے میں گرانقدر گوہر اور نایاب موتی چنے ہیں جن کی کسی بهی مکاتب فکر میں کوئی مثال نہیں ہے ۔ گویا یہ طلاطم خیز دریا ہر روز عالم انسانیت کے لئے نو ظہور دروگوہر کی بشارت دیتا ہے۔
قیام عاشوراء اور اس کے نتائج و آثار، مؤثر ترین اور زندہ جاوید واقعہ ہے جو اسلام کی تاریخ میں بنیادی تبدیلیوں کا باعث ہوا۔ اس قیام کے آثار و نتائج زمانہ وقوع حادثہ اور اس کے نزدیکی برسوں میں منحصر نہیں ہیں۔ سبط پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) حضرت ابو عبداللہ الحسین (ع) اور ان کے اصحاب با وفا کا دس محرم ۶۱ ہجری میں پاک خون بہایا جانا تاریخ بشریت کا ایک دردناک ترین واقعہ ہے اس خونین واقعہ نے عالم اسلام کی تاریخ میں اتنے عمیق و وسیع اور زندہ جاوید آثار چهوڑے ہیں کہ تقریباً چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بهی اس کے آثار باقی ہیں اور نہ تنہا مرور زمانہ سے اس کے ابعاد و مقاصد اور نتائج فراموشی نذر کی نہیں ہوئے بلکہ واقعہ عاشوراء کی تاثیر امت اسلام کی حیات کے بعض اہم اور تعیین کنندہ حصے پر پہلے سے کہیں زیادہ وسیع پیمانے پر نمایاں ہے۔
سید الشہداء علیہ السلام نے ایسے حالات میں یزید اور اس کی طاغوتی حکومت کے خلاف جو مسند خلافت پر متمکن تها۔ اپنے خونچکاں قیام کا آغاز کیا کہ خاندان بنی امیہ خلافت اور پیغمبر کی جانشینی کے دعویداروں نے اسلامی اقدار کو پامال کر رکها تها اور جاہلیت کی طرف پلٹ چکے تهے، نسلی تعصب کا بول بالا تها اور وحی و رسالت کا کهلم کهلا مذاق اڑایا جاتا تها اور اسلام کے قیمتی اصول میں تحریف و دگر گونی نے دین خدا کو معرض زوال میں قرار دے رکها تها۔ قیام امام حسین علیہ السلام کا سب سے اہم مقصد حق کو باطل سے جدا کرنا، خالص اور حقیقی اسلام کی دوبارہ ترسیم اور خلافت کے دعویداروں کی ماہیت و حقیقت سے عالم اسلام کو روشناس کرانا تها۔ اسی طرح سے سید الشہداء کے خون نے حقیقی اسلام کو پهر سے زندہ کیا۔اور تحریک عاشوراء حق و باطل میں فرق کرنیوالی قرار پائی اور اسلام حقیقی کی تحریف شدہ اسلام سے تشخیص کی سرحد قرار پائی۔ اس کے بعد آل رسول کے پیروکاروں کی یالثارات الحسین کے نعروں کے ساته بنی امیہ کی بدعتوں اور مظالم کے خلاف بغاوتوں اور قیام کا آغاز ہوا۔ کوفہ میں توابین کا قیام، اہل مدینہ کا قیام،مختار کا قیام، حجاج کے خلاف ابن مغیرہ کا قیام اور ابن اشعث اورزید بن علی اور ان کے بیٹوں کا قیام اس سلسلے کی کڑی ہیں۔ اس پوری مدت میں خلفاء جور کے مظالم کے خلاف انقلابی مسلمانوں کی استقامت دینی و ثقافتی ائمہ معصومین (علیہم السلام) کی رہبری سے سیراب ہوتی رہی، وہی پیشوا کہ عاشوراء کی یاد کو باقی رکهنا اور عاشورائی تہذیب کو زندہ رکهنا ان کی زندگی کا اولین مقصد تها۔
کلی طور پر اور ایک منصفانہ تاریخی تجزیہ میں کہنا چاہیئے؛ حقیقی اور انقلابی اسلام کی حفاظت، دینی و مذہبی اقدار کی حفاظت، تاریخ اسلام میں اصلاح طلب تحریکوں کا استمرار اور اسی طرح انقلابی ملت شیعہ کے حیات قیام عاشوراء کی مرہون منت ہے۔ واقعہ عاشوراء کے بعد خلفاء اور ظالم حکومتوں نے بلاد اسلامی میں قیام عاشوراء کے آثار و نتائج، مقاصد اور نعروں سے ڈرتے ہوئے، دنیا طلب دین فروشوں کو اپنا آلۂ کار بناتے ہوئے اس تاریخ ساز واقعہ کے پہلوؤں کو تحریف کرنا شروع کیا اور جس زمانے سے جدید استعمار بلاد اسلامی کو ٹکروں میں تقسیم کرنے میں کامیاب ہوا اور اسلامی ممالک اور حکومتوں پر اس کا غلبہ ہوا، ظلم مخالف روح اور قیام خیز واقعہ عاشوراء کے بجائے تحریفات، بدعتوں اور خرافات نے تیزی سے جگہ لینی شروع کی اور نتیجہ یہ ہوا کہ روح عاشوراء اور مکتب و پیام عاشوراء کا مسلمانوں کی زندگی میں رنگ پهیکا پڑنے لگا اور اس کی ظاہری، تشریفاتی اور بے روش شکل باقی رہ گئی اور اس سے سوء استفادہ ہونے لگا۔
دشمنوں کی دست اندازی اور راحت طلب دین فروشوں کی تحریکوں کی وجہ سے عاشوراء کو ایک معنوی، انقلابی اور پر ارزش مکتب دیکهنے کے بجائے ایک دردناک واقعہ کی شکل میں دیکها جانے لگا جیسے اس میں نہ کوئی پیغام ہے نہ منطق اور اس کے کچه آثار و نتائج ہیں اور حادثہ کو ایسے ترسیم کیا گیا کہ تنہا ان مصائب پر آنسو بہانا چاہیئے اور نوحہ سرائی کرنی چاہیئے وہ بهی ایسے ضعیف اور سست نوحے جس کے کچه نمونے رضا خان اور اس کے بیٹے کے دور میں ایران میں رائج تهے اور ان کی ترویج ہوتی تهی۔
ایسے وقت اور ناگفتہ بہ حالات میں عاشوراء کے حقیقی فرزند، امام خمینی نے اپنی آتشیں تقریر میں ۱۹۶۳ کے عصر عاشوراء میں اپنی عاشورائی تحریک یعنی قیام ۵؍جون کو برپا کیا۔ بلا تردید امام خمینی کی تحریک اور اسلامی انقلاب نہ صرف یہ کہ شدت کے ساته تہذیب عاشواء اور قیام سید الشہداء سے متأثر ہے بلکہ یہ تحریک اپنے ارکان و اجزاء اور اساس میں قیام عاشوراء اور اس کے آثار و نتائج کی پیداوار ہے۔ امام خمینی کے قیام اور مکتب عاشوراء کے درمیان مذکورہ اتصال امام کے عمل، رفتار، گفتار، شعار اور اسلامی انقلاب کے مقاصد میں اس درجہ آشکار ہے کہ استدلال اور بیان کی ضرورت نہیں ہے، یہاں تک کہ اسلامی انقلاب کی تاریخ محرم و عاشوراء کے اتصال اور ان مناسبتوں میں ظہور پذیر ہوئی ہے۔
امام خمینی کا آغاز عصر عاشوراء ۱۹۶۳ میں ہوا اور نقطہ اوج قیام بهی ۱۹۷۸ کو ماہ محرم میں جلوہ نما ہوا۔ امام خمینی کا اس سال کے محرم کی مناسبت سے انقلابی پیغام ’’خون کی شمشیر پر کامیابی‘‘ کا نعرہ تها جو آج کی دنیا کے روبرو اسلامی انقلاب کی منطق کے عنوان سے سامنے آیا۔ ۱۹۷۸ میں تاسوعا اور عاشواء حسینی میں تہران اور پورے ایران میں لاکهوں لوگوں کے مظاہرے نے شاہ اور امریکا کی کمر توڑدی جو شاہ کی حمایت پر کمر بستہ تها اور اس کے بعد ہر سال محرم و عاشورائ، اسلامی انقلاب کے حوالے سے صاحبان ایمان جنگجو ئوں کا میدان قرار پایا اور انقلاب کا دفاع کرنیوالوں میں مجاہدانہ جذبہ کی افزائش کا موجب ہوا۔ اور ملت ایران کے حسین طرز ۸ سالہ دفاع مقدس میں بهی محرم و عاشوراء اور سید الشہداء اور ان کے اصحاب مقدم نام نے نہ صرف یہ کہ رمز عملیات، اور خون کی شمشیر پر کامیابی کا شعار کہ عاشوراء کی زبان ہے، اور حسین اور کربلائے حسینی سے عشق کو ملت ایران کے حیرت انگیز ۸ سالہ دفاع ستمگروں کے مقابلے میں نظر انداز کردیں تو کوئی مطلب اور بات دوسروں کے سامنے پیش کرنے کے لائق نہیں رہ جاتی ہے اور یہ تنہا دفاع مقدس کے دوران نہیں ہے کہ حسین کے مقدس نام کا معجزہ، اور قیام عاشوراء اور اس کے آثار و نتائج کی تاثیر جلوہ گر ہے بلکہ دنیا کی بڑی طاقتوں کی حمایت کے با وجود شاہ کی مسلح فوج پر اسلامی انقلاب کی کامیابی پیام و منطق عاشوراء کے عمیق نفوذ و اثر کا نتیجہ ہے جو اس نے اسلامی انقلاب پر ڈالا ہے۔ البتہ تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنیوالوں پر بالخصوص عصر حاضر میں پوشیدہ نہیں ہے کہ ملت ایران کا بے نظیر کارنامہ، روح تہذیب عاشوراء اور اس کے قیام خیر مفاہیم جیسے آزادی، شہادت طلبی، راہ خدا میں استقامت و قیام و جہاد اور راہ خدا میں ایثار امام خمینی کی بیدار فکر اور عمل کا مرہون منت ہے۔ جس طرح رو ح عاشورائی، پیام عاشورائی، اور درس عاشوراء کا اسلامی انقلاب کی پیدائش اور کامیابی میں بے بدیل اور ایک بڑا حصہ ہے امام خمینی کا بهی تہذیب عاشوراء کو زندہ کرنے اور اس پر سے بدعت و خرافات کے زنگ کو مٹانے میں بہت بڑا ہاته ہے۔