ہاشمی رفسنجانی کے جنازے کا جلوس، انقلاب کی ضمانت تھا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی تشخیص مصلحت نظام کونسل کے سربراہ اور سابق صدر اور سینیئر سیاستداں آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی بیاسی سال کی عمر میں اتوار کو تھران میں حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کرگئے۔
آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی کا شمار اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے قریبی انقلابی رہنماؤں میں ہوتا تھا۔
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بھی آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی کے انتقال پر اپنے تعزیتی پیغام میں فرمایا: "وہ شاہی ستم کے خلاف جدوجہد کرنے والی پہلی نسل کا کم نظیر نمونہ اور اس پر خطر اور پر افتخار راستے کی رنج دیدہ ہستی تھے۔
برسوں ساواک (شاہی دور کی خوفناک خفیہ ایجنسی) کی جیلوں میں ایذاؤں کا سامنا کرنا اور اس کے بعد مقدس دفاع کے دوران بڑی سنگین ذمہ داریوں کو اپنے دوش پر اٹھانا اور پارلیمنٹ کے اسپیکر اور ماہرین اسمبلی کے سربراہ کی حیثیت سے فرائض کی انجام دہی اس قدیمی مجاہد کی نشیب و فراز سے بھری زندگی کے درخشاں ابواب ہیں۔
جناب ہاشمی کے چلے جانے کے بعد اب مجھے کوئی اور شخصیت نظر نہیں آتی جس کے ساتھ اس تاریخ ساز دورانئے کے نشیب و فراز میں اس طولانی مدت تک میرے مشترکہ تجربات ہوں"۔
آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی کی رحلت کی خبر اسلامی جمہوریہ ایران سمیت دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں شہ سرخیوں میں شامل رہی ہے:
روزنامہ وقایع اتفاقیہ نے اپنے ایک مضمون جس کا عنوان ہے: "ہاشمی رفسنجانی کے جنازے کا جلوس، انقلاب کی ضمانت تھا" میں لکھا ہے:
آیۃ اللہ ہاشمی رفسنجانی نے اپنی ایک ایسی یادگار شبیہ چھوڑی ہے جسے دور اندیشی اور بصیرت کا مجموعہ کہا جا سکتا ہے۔ انھوں نے یہ دکھا دیا ہےکہ کس طرح ایک سیاستداں مختلف جماعتوں اور دھڑوں کے درمیان مقبول ہو سکتا ہے۔ ان کی اس روش کی بنیاد پر معاشرے میں ان کے افکار کے فروغ کی امید رکھی جا سکتی ہے اور اسی لیے ان کے بعد کے مرحلے کےلیے کسی قسم کی تشویش نہیں ہے۔ خود آيۃ اللہ ہاشمی رفسنجانی نے کہا تھا کہ سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات کے بعد وہ پورے اطمینان سے اس دار فانی کو الوداع کہہ سکتے ہیں کیونکہ معاشرہ ایک ایسے راستے پر گامزن ہو چکا ہے جس میں وہ مشکلات اور سختیوں کے باوجود صحیح منزل کا انتخاب کرسکتا ہے۔
آیۃ اللہ ہاشمی رفسنجانی کے جنازے کے جلوس میں جس طرح سے لوگوں کا سیلاب گھروں سے باہر آيا تھا، اس نے اسلامی انقلاب کو مزید استحکام عطا کیا ہے۔ شاید یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے جنازے کے جلوس کے بعد تہران میں اتنی کثیر تعداد میں لوگ کبھی باہر نہیں نکلے تھے۔ یہ کثیر تعداد اسلامی انقلاب کےلیے ایک ضمانت تھی۔ اگر آیۃ اللہ ہاشمی رفسنجانی کی روش کو اختیار کیا جائے، جو اعتدال اور منطق کی روش تھی، تو ان شاءاللہ مستقبل میں کسی قسم کی دشواری پیش نہیں آئےگی۔
اسی طرح اخبار اطلاعات نے معاشی اصلاحات میں آيت اللہ رفسنجانی کے واضح افکار کے زیر عنوان سے ایک مضمون شائع کیا جس میں لکھا ہےکہ ایران کے ماہرین اقتصادیات اپنے الگ الگ رجحانات کے ساتھ بارہا، اہم سیاسی امور اور ملک کی پیشرفت کے بارے میں مرحوم آیۃ اللہ ہاشمی رفسنجانی کی تمنا کا تذکرہ کر چکے ہیں۔ شاید ان کے آٹھ سالہ دور صدارت چھوٹے موٹے پروگراموں اور منصوبوں سے بعض لوگوں کو کچھ غلط فہمیاں بھی ہوں لیکن ان آٹھ برسوں میں ملک کی ترقی و پیشرفت کےلیے جو کام کیے گئے ان کے مقابلے میں وہ غلط فہمیاں بہت معمولی ہیں۔
آیۃ اللہ ہاشمی رفسنجانی جب بھی یہ محسوس کرتے تھےکہ کسی بھی سطح کے کسی بھی کام کےلیے حکومت کو آگے بڑھنا چاہیے تو وہ لمبے قدم اٹھاتے تھے اور جہاں تک ان سے ممکن ہوتا تھا حکومت کی جانب سے مداخلت کو کم کر دیتے تھے۔ ملک کے بہت سے نجی صنعتکاروں اور بڑے بڑے مینیجروں کو اب بھی کام اور روزگار کے سلسلے میں آیۃ اللہ ہاشمی رفسنجانی کے کھلے افکار یاد ہیں اگرچہ اس کو بیس سال کا عرصہ ہو چکا ہے۔ بہت سے ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہےکہ اگرچہ پچھلی پانچ حکومتوں کے دوران بڑی بڑی معاشی اصلاحات ہوئی ہیں اور اقتصادیات کے میدان میں بہت سارے کام ہوئے ہیں لیکن آیۃ اللہ ہاشمی رفسنجانی کے آٹھ سالہ دور صدارت میں خاص طور پر معیشت اور اقتصاد کے شعبے میں جو کام ہوئے، ان کی مثال ملنا مشکل ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ معیشت کے پہیوں کو گھمانے کےلیے سرمائے کی ضرورت ہے اور چونکہ بیرون ملک ایرانیوں کا بہت سا سرمایہ ہے اسی لیے انھوں نے اپنے وزیر اقتصادیات کو بیرون ملک بھیجا جنھوں نے بیرون ملک ایرانیوں کے سرمائے کو ملک واپس لانے کی راہ ہموار کی۔
آیۃ اللہ ہاشمی رفسنجانی ملکی سیاست میں سبھی کو ساتھ لے کر چلنے کے قائل تھے اور ساتھ ہی ملک کے عوام کے کام اور روزگار کےلیے ایک ترقی اور اصلاح پسند سیاستداں بھی تھے۔
ماخذ: http://urdu.sahartv.ir/