ایرانی معاشرے میں اسلامی انقلاب درحقیقت اقدار کا انقلاب تھا۔ حضرت امام خمینی (ره) کے افکار ونظریات نے معیاروں کو بدل کر رکھ دیا۔ آپ (ره) کے نظریات اور ارشادات کے پرتو میں عورت بدل گئی اور نظام آفرینش میں اپنے حقیقی مقام ومنزلت سے ہمکنار ہوگئی۔ آپ (ره) نے عورت کو پست ترین مقام سے اٹھاکر انسانی ترقی وکمال کے نقطہ عروج پر لا کھڑا کیا۔ آپ (ره)کے نظریات نے عورت کی نگاہ کے افق میں وسعت اور کمال کی جانب عورت کی رفتار میں سرعت پیدا کردی۔ ایرانی عورت میں تبدیلی آئی اور اس نے صحیح راستہ پہچان لیا۔
’’چھوٹے بچوں سے لے کر بڑے بوڑھوں تک اور ننھی بچیوں سے لے کر بڑی بوڑھیوں تک سب میں ہی مضبوط ارادے کی وجہ سے ایک روحانی اور فکر خوشگوار تبدیلی آئی۔ سب نے مل کر تحریک چلائی اور ثابت قدمی کی {ان تقوموا ﷲ جمعاً وفرداً}‘‘۔ ’’یہ ایک انقلاب تھا۔ انسان اسے برپا کرنے پر قادر نہیں تھا۔ یہ انقلاب اﷲ تعالیٰ نے بر پاکیا، یعنی مقلب القلوب نے یہ کام انجام دیا۔ اس نے دلوں سے وہ خوف نکالا، اس حکومت کا وہ خوف جو سب کے دلوں میں موجود تھا۔ یہ ایک خوشگوار روحانی تبدیلی تھی جو اﷲ تعالیٰ اس ملت میں لایا اور جب تک ہم اس تبدیلی کا تحفظ کریں گے۔۔۔ کامیابی ہمارا نصیب ہوگی‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۷، ص ۱۲۹)
اسلامی انقلاب کے ذریعے عورت خالص محمدی(ص) اسلام اور قرآن کریم کی جانب لوٹ آئی۔ وہ جان گئی کہ اسلامی فکر اور قوانین اس کیلئے مفید اور سودمند ہیں ۔
’’عورت نے اسلام اور قرآن سے قوت پائی وہ خداتعالیٰ کی ذات پر بھروسہ اور توکل کرتے ہوئے جہاد کے میدان میں اتر آئی۔ عورتوں کہ جن کی حالت پہلے اور طرح کی تھی اور حکومت وقت نے ان کو دوسرے مسائل میں لگا رکھا تھا، میں ایسی جوشگوار تبدیلی آئی کہ وہ حکومت وقت کے سامنے سینہ سپر ہوگئیں اور انہوں نے اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ بلکہ ان سے زیادہ اس تحریک میں حصہ لیا۔ یہ تبدیلی ایک معجزہ تھی‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۸، ص ۱۹۵)
امام (ره) نے خواتین کو قید، طوق وزنجیر اور اسیری کی شناخت کرائی۔ انہیں قید سے رہا ہونے کی دعوت دی۔ خواتین نے بھی امام (ره) کے نظریات کا گہرا ادراک کرتے ہوئے آپ (ره) کی آواز پر لبیک کہی اور آزادی کی جانب قدم بڑھا دئے اور بلند مقامات تک جا پہنچیں ۔ نادرست روایات اور مغربی افکار کی قید میں جکڑی ہوئی عورت نے حضرت امام امت (ره) کے اسلامی تعلیمات پر مبنی کلام کے ذریعے نجات پائی۔
’’اسلام نے عورتوں کو آزادی سے سرافراز کیا ہے۔ یہ حکومت اور شاہ ہے جو ان کی آزادی کو چھینے ہوئے ہیں اور انہیں ہر طرح سے مقید کررہا ہے‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۴، ص ۱۳۹)
حضرت امام امت (ره) کی راہنمائی کے زیر سایہ عورت کو معلوم ہوا کہ اسلام معاشرتی میدانوں میں اس کی شرکت اور اس کے حقیقی تمدن کا مخالف نہیں ہے۔ اسے معلوم ہوا کہ اسلام بغیر کسی قید وشرط کے اس کے گھر کی چاردیواری کے اندر محصور رہنے کے خلاف ہے۔
’’شاہ کی حکومت ہماری معاشرتی پیشرفت اور ترقی کے مخالف تھی۔ اس نے ہمارے ملک کی آزادی اور خودمختاری مکمل طورپر محروم کردیا تھا۔ اسلامی حکومت رجعت پسند نہیں ہے وہ تمدن کے ہر رخ کی حمایت کرتی ہے سوائے اس کے کہ جو ملت کی آسائش پر ضرب لگانے والا اور اس کی عمومی عفت کے منافی ہو۔ اسلام عورت کی آزادی کا فقط حامی ہی نہیں بلکہ وہ خود تمام وجودی جہات کے اعتبار سے عورت کی آزادی کا بانی ہے‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۴، ص ۱۹۲)