مخلص ہونا چاہئے تا کوئی صدمہ نہ پہنچے

مخلص ہونا چاہئے تا کوئی صدمہ نہ پہنچے

ہمیں اچھائیوں کو اپناتے ہوئے مخلص انسان بننے کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں کسی بھی شخص کو ہماری جانب سے صدمے کا اندیشہ نہ ہو۔

ہمیں اچھائیوں کو اپناتے ہوئے مخلص انسان بننے کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں کسی بھی شخص کو ہماری جانب سے صدمے کا اندیشہ نہ ہو۔

یادگار امام آیت اللہ سید حسن خمینی کا کہنا تھا: ہمیں اچھائیوں کو اپناتے ہوئے مخلص انسان بننے کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں کسی بھی شخص کو ہماری جانب سے صدمے کا اندیشہ نہ ہو  اور وہ امنیت اور آرامش کا حساس کرے۔

جماران کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ سید حسن خمینی نے حوزہ علمیہ کی درسگاہ "دارالشفاء" میں درس خارج کے اختتام پر عید غدیر کی مناسبت سے مبارک باد دیتے ہوئے قرآنی آیت: «السابقون» سے متعلق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کی روایت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: عبد الله بن عباس سے منقول ہےکہ میں نے قرآن کی اس آیت " اور سبقت لے جانے والے تو آگے بڑھنے والے ہی ہیں۔ یہی مقرب لوگ ہیں" کے بارے میں پیغمبر اسلام{ص} سے پوچھا کہ اس سے مراد کون لوگ ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: اس آیت کی تفسیر میں جبرئیل نے مجھے خبر دی ہےکہ اس سے مراد علی {علیہ السلام} اور اس کے شیعہ ہیں جو سب سے پہلے بہشت میں داخل ہونگے۔

انہوں نے تاکید کی کہ جس معاشرے میں لوگ، ایک دوسرے کی خطاوں کو نظر انداز نہیں کرتے وہاں لوگوں میں اختلاف کے ساتھ بغض و کینہ جیسی رذیلہ صفات بھی جنم لیتی ہیں۔ یہی وجہ ہےکہ لوگوں کی سابقہ غلطیوں پر اصرار، سماج کو انتشار کی جانب لے جاتا ہے۔

سید حسن نے قوت برداشت کی اہمیت کے پس منظر میں حوزہ علمیہ قم میں بعض ممتاز اساتذہ کی جانب سے " زبان کے گناہوں " سے متعلق تدریس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: امام کی خصوصیات کے بارے میں بعض بزرگوں کا کہنا ہےکہ امام «حضور» اور «زبان» دونوں کے مالک تھے، یعنی امام ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ ان کے حضور ہر کوئی جو چاہئے انجام دے اور محتاط انداز میں گفتگو کرتے تھے۔

انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے کہ کوئی بھی فیصلہ جلد بازی میں نہ کیا جائے، کہا: میدان سیاست کے بزرگوں میں سے ایک نے مجھے بتایا کہ انسان کی کامیابی کا راز اس میں ہےکہ ہر فیصلے کو آخری وقت میں، 24 گھنٹوں کےلئے ملتوی کیا جائے، یعنی کسی بھی کام کے بارے میں ممکنہ فیصلے کے بعد بھی مزید غور و فکر کی ضرورت ہے۔

یادگار امام نے مزید کہا: امام کی زندگی کے مطالعے اور مختلف افراد کی یادداشتوں سے معلوم ہوتا ہےکہ جب بھی مختلف شخصیات امام کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی رپورٹیں پیش کرتی تھیں تو امام خاموشی سے سنتے تھے اور بر وقت فیصلہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے، اس ضمن میں بعد میں فیصلہ سنانے کی بات کرتے تھے۔

انہوں نے واضح کیا: اگر ہم اپنی زندگی کے افق اور دل کی گہرائیوں سے کسی کےلئے نیکی کے متمنی ہوں تو اس سے محبت کرنے کا سلیقہ بھی سیکھ سکتے ہیں، بسا اوقات ایک چھوٹی مسکراہٹ بہت سے افراد کےلئے بڑے کام کی صورت اختیار کرتی ہے۔

خمینی نے مزید کہا: بسا اوقات بعض سیاستدانوں کےلئے پرائمری سکول کے بچے کی ایک تحریر ایک ہزار ٹربیون سے زیادہ بھاری ثابت ہوتی ہے اور انہیں انرژی اور قوت قلب فراہم کرتی ہے۔

آیت اللہ، نے مولا علی(ع) کا شیعہ اور پیروکار ہونے کےلئے ان وصیتوں کی تابعداری پر زور  دیتے ہوئے کہا: جس قدر ہم ان نکات پر عمل پیرا ہوں گے اسی تناسب سے ہماری شیعیت میں اضافہ ہوتا جائےگا اور جس قدر شیعیت میں اضافہ ہوگا اسی قدر جنت میں داخل ہونے میں سبقت حاصل ہوگی۔

سید نے آخر میں سفارش کرتے ہوئے کہا: ہمیں اچھائیوں کو اپناتے ہوئے مخلص انسان بننے کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں کسی بھی شخص کو ہماری جانب سے صدمے کا اندیشہ نہ ہو اور وہ ہماری جانب سے  امنیت اور آرامش کا حساس کرے۔

 

ماخذ: جماران خبررساں ویب سائٹ

ای میل کریں