ب: جدید علوم، قرآن کے خادم ہونے چاہئیں نہ یہ کہ قرآن جدید علوم کیلئے ہو۔ بالفاظ دیگر، قرآن کے فہم کیلئے ان علوم سے آشنائی ضروری ہے، کیونکہ جیسا کہ زرکشی کا کہنا ہے: جو شخص علوم سے جنتا زیادہ بہرہ مند ہوگا علم قرآن میں سے اس کا حصہ بھی زیادہ ہوگا۔لہذا ان علوم کو قرآن کے فہم کیلئے حاصل کرنا چاہیے، مثلاً امام خمینی (ره)اس آیت { ہُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمٰواتِ وَالأَرْضَ في سِتَّۃِ أَیٰامٍ ثُمَّ اسْتَویٰ عَلَی الْعَرْش}(حدید ؍۴) کے ظاہری معنی کی طرف اشارہ کرنے کے بعد کہ جس میں زمین وآسمان کی تخلیق اور عرش الٰہی پر اس کے استوار ہونے کو بیان کیا گیا ہے، تحریر فرماتے ہیں :
’’ارباب عقل ودانش کی عقول اس آیت شریفہ کی تفسیر کے بارے میں متحیر ہیں اور ہر کسی نے اپنے مسلک ومکتب اور اپنے علم وعرفان کے مطابق اس کی تفسیر کی ہے، کیونکہ ظاہری اعتبار سے چھ روز میں تخلیق کی کوئی مناسبت نظر نہیں آتی کہ خداوند عالم نے اس آسمان وزمین کہ جو سائنسی اعتبار سے کئی کروڑ سال میں وجود میں آئی ہے، آج کل کے چھ دنوں میں پیدا کیا ہو‘‘۔(اس کے تفسیری احتمالات کیلئے دیکھئے: احمد حنفی، التفسیر العلمی للآیات الکونیہ، ص ۲۲۵)
اسی وجہ سے امام خمینی (ره) اس تفسیر کے عرفانی پہلو کا احتمال دیتے ہیں اور اس کے بعد وہ جدید علوم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسرے احتمال کو پیش کرتے ہیں :
’’یہاں ایک اور احتمال بھی ہے جو عرفانی بیان کے منافی نہیں ہے اور وہ احتمال عصر حاضر کے اجرام فلکی کے علم کے مطابق ہے کہ جس نے بطلیموسی ہیئت واجرام فلکی پر بطلان کی لکیر کھینچ دی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمارے نظام شمسی کے علاوہ دوسرے بہت سے شمسی نظامات موجود ہیں جن کا کوئی شمار نہیں کرسکتا اور اس کی تفصیل جدیدترین علم نجوم واجرام فلکی کی کتب میں موجود ہے۔ یہ بھی ممکن ہے ارض وسماوات سے مراد یہی نظام شمسی اور اس کے مدار اور اس کے سیارے ہوں لیکن چھ روز کی حد کا تعین کسی اور نظام شمسی کے اعتبار سے کیا گیا ہو۔ یہ احتمال تمام احتمالات میں سے ظاہر کے زیادہ قریب ہے اور عرفانی احتمالات کے خلاف بھی نہیں ہے، کیونکہ وہ قرآن کے بعض بطون کے عین مطابق ہے‘‘۔(شرح چہل حدیث، ص ۶۵۸)
درحقیقت تفسیر کا یہ اسلوب ان افراد کے شبہے کے جواب میں ہے جو سائنسی اعتبار سے زمین وآسمان کی تخلیق کو جدید اجرام فلکی کے علم کے مطابق پیش کئے گئے چھ دن نہیں سمجھتے ہیں بلکہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کرۂ زمین کی زمانی تخلیق کے حساب کے مطابق یہ چند ملین سالوں میں وجود میں آئے ہیں۔ توجہ طلب نکتہ یہ کہ امام خمینی (ره) نے نجفی اصفہانی سے کافی عرصے تک ہیئت، نجوم اور ریاضی جیسے علوم حاصل کئے اور وہ ان علوم سے آشنائی رکھتے ہیں۔