توحید

نظام ہستی کے ذریعہ سے توحید کا استنباط

نظام ہستی خود بخود وجود میں نہیں آیا ہے

اگر کوئی اپنی وسعت علمی اور طاقت کے مطابق اپنی خلقت پر غور و فکر کرے تو اولا اس کے ادراک کے ظاہری وسائل ادراک مدرکات و محسوسات کے مطابق بنائے گئے ہیں  ، اس دنیا میں  پائے جانے والے مدرکات میں  سے ہر ایک گروہ کے لئے کتنے محیر العقول ترتیب ووضع کے ساتھ قوت ادراکی کو رکھا گیا ہے اور ان امور معنوی کے لئے جنہیں  حواس ظاہری سے درک نہیں  کیا جاسکتا ، حواس باطنی کوقرار دیا گیا ہے جو ان کا ادراک کرتا ہیں ، علم الروح اور قوائے روحانیہ نفس کہ جس کے براے میں  انسان بہت کم جانتا ہے ، سے تو صرف نظر کرو، علم بدن، علم تشریح ،طبیعی ساخت و بناوٹ اور ظاہری وباطنی اعضاء کے خواص پر غور و فکر کرو، کتا عجیب و غریب نظام اور ترتیب ہے کہ سو صدیان گذرنے کے بعد بھی علم بشر اس کے ہزارویں  حصہ تک بھی نہیں  پہنچا ، تمام اہل علم اپنی فصیح و بلیغ زبان سے اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں  جبکہ دیگر زمینی موجودات کے بہ نسبت انسان کا بدن کچھ نہ ہونے کے برابرہے اورہمارا نظام شمسی دیگر منظومات شمسی کے مقابل کوئی خاص حیثیت نہیں  رکھتا ، تمام کلی و جزئی نظامات ایک منظم ترتیب امر مترتب نظام کے تحت وجود میں  لائے گئے ہیں  کہ ذرہ بھر بھی کوئی اس پر اعتراض نہیں  کر سکتا ، عقول بشر ان میں  سے کسی ایک کی گہرائی کو بھی سمجھنے سے قاصر ہے ۔

کیا اس غور و فکر کے بعد آپ کی عقل کسی اور مطلب کو جاننے کی خواہشمند ہے تا کہ اسے یہ یقین آجائے کہ ایک عالم قادر اور حکیم ہستی نے کہ موجودات میں  سے کوئی چیز بھی اس کی شبیہ نہیں  ہے، ان موجودات کو تمام تر حکمت و نظام و ترتیب و استحکام کے ساتھ ایجاد کیا ہے؟ ’’ أفی اﷲ شک فاطر السمٰوات والارض‘‘۔(کیا زمین و آسمان کے خالق اللہ کے بارے میں  شک ہے ۔  سورہ ابراہیم ؍۱۰)

یہ منظم اور وسیع و عظیم صنعت کہ عقول بشر جس کی کلیات سمجھنے سے قاصر ہیں  خود بخود اور بے ربط پیدا نہیں  ہوئی ہے ، نابینا ہے وہ چشم دل جو حق کو نہ دیکھے اور موجودات میں  اس کے جمال جمیل کا مشاہدہ نہ کرے ، بربادی ہے اس شخص کے لئے جو ان تمام آیات و آثار کے با وجود شک و تردد میں  مبتلا رہے ، لیکن یہ بے چارا انسان جو خود اوہام میں  گرفتار ہے کیا کرے؟

اگر آپ اپنی تسبیح کسی کے سامنے پیش کریں  اور اس بات کا دعوی کریں  کہ یہ تسبیح نظم و ترتیب دیے بغیر خود بخود منظم ہوگئی ہے تو سب لوگ آپ کی عقل پر ہنسیں  گے بلکہ آفت تو تب ٹوٹے گی اگر آپ اپنی جیبی گھڑی نکال کر یہی دعوے کریں  کیا لوگ آپ کو عقلا کے زمرے سے خارج نہیں  کریں  گے ؟ کیاتمام عقلا عالم آپ کو پاگل اور جنونی قرار نہیں  دیں  گے ؟ اگر کوئی اس سادہ اور جزئی نظام کو دائرہ علل و اسباب سے خارج سمجھے تو کیا اسے پاگل اور دیوانہ نہیں  کہنا چاہئے اور کیا اسے حقوق عقلا سے محروم نہیں  سمجھناچاہئے؟

پس اس کے بارے میں  کیا کرنا چاہئے کہ جو اس نظام عالم کو نہیں  بلکہ انسان اور روح و بدن کے اس نظام کے بارے میں  خود بخود پیدا ہونے کا دعوی کرتا ہے؟ کیا اسے پھر بھی زمرہ عقلا میں  شمار کیاجانا چاہئے اس بے عقل سے زیادہ احمق کون ہو سکتا ہے؟ ’’قتل الانسان ما اکفرہ‘‘(ہلاکت ہو انسان(بے ایمان انسان) وہ کیوں  اس حد تک نا شکر ہونے لگا۔  عبس /۱۷)   مرجائے وہ انسان جوعلم کے ذریعہ سے زندہ نہیں  ہے اور ضلالت و گمراہی کے سمندر میں  غوطہ ور ہے۔( چہل حدیث ، حدیث نمبر ۱۲، ص ۱۹۶)

عقل کے نزدیک یہ ایک واضح سامسئلہ ہے ، ہر انسان کی عقل اپنی فطرت کی روسے یہ سمجھتی ہے کہ ممکن (ایسا وجود جس کے لئے وجود و عدم مساوی ہو) خود بخود وجود میں  نہیں  آسکتا اس ممکن کے لئے ضروری ہے کہ اس کا سلسلہ علل موجود بالذات پر ختم ہو یعنی جس سے وجود کو سلب نہیں  کیا جا سکتا یعنی جوازلی ہے وہ موجودات جو ممکن ہے وجود میں  آجائیں  اور ممکن ہے وجود میں  نہ آئیں  خود بخود وجود میں  نہیں  آسکتے بلکہ اس بات کے محتاج ہیں  کہ خارج سے کوئی چیز انہیں  وجود عطا کرے ، اگر ہم کسی فضا کو فرض کریں جو ہمیشہ سے ہے تو یہ فضا خود بخود ( بغیر کسی دلیل کے) کسی اور چیر میں  تبدیل نہیں ہوسکتی۔

جو حضرات یہ کہتے ہیں  کہ دنیا میں ازل ہی سے ایک لا متناہی فضا موجود ہے (اس اشکال سے قطع نظر کہ جو نا متناہی ہونے میں ہے ) اور پھر ایک طرح کی ہوا اور بخار پیدا ہوا اوراس کے ساتھ ہی دیگر (موجودات) پیدا ہو گئے ، تو یہ بات صریحا عقل کے خلاف ہے کہ کوئی چیز خود بخود کسی اور چیز میں  تبدیل ہوجائے۔ مثلاً پانی کا برف بننا علت خارجی کے بغیر ممکن نہیں  ہے ، اگر پانی کی سردی صفرڈگری سے نیچے نہ ہو اور اس کی گرمی صفر ڈگرمی سے اوپر نہ ہو تو ہمیشہ پانی ہی رہے گا ، ہر معلول علت کا محتاج ہے اور ہر ممکن علت کا محتاج ہے۔

تفسیر سورہ حمد، ص ۲۲۔

ای میل کریں