ج: امام خمینی (ره)کی سائنسی تفسیر میں تیسرا نکتہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ قرآن، سائنس کا مخالف نہیں ہے اور اگر مفسرین نے آیات قرآن کی گزشتہ سائنسی نظریات کی بنا پر تفسیر کی ہے جن کا بطلان آج ثابت ہوچکا ہے تو یہ ان کی تفسیر ہے نہ کہ قرآن کا بیان۔ امام خمینی (ره)کا زیادہ اہم کام یہ ہے کہ آپ نے قرآن کریم کو پہچنوانے کے سلسلے میں معارف، الٰہیات اور سیر وسلوک کی جانب توجہ دلانے کی کوشش کی ہے۔اور قرآن کے اس پہلو کو امام خمینی (ره)نے ہمیشہ تفسیر قرآن اور نزول قرآن کے اصل مقصد کے طورپر یاد کیا ہے:
’’قرآن کی زبان کو دیکھیں کہ { زَینَّا السَّمائَ الدُّنْیا بِزِیْنَۃِ الْکَواکِب}(’’ہم نے نزدیک ترین آسمان کو ستاروں کے ذریعے زینت دی ہے‘‘ صافات ؍۶) بطلیموسی اجرام فلکی کے برخلاف سماء دنیا، یعنی وہی کہکشاں ہے کہ جس کو تم دیکھتے ہو یہ سب سے نچلا آسمان ہے، سماء دنیا ہے، لہذا یہ سب سے نچلے آسمان اور کہکشانیں ہیں کہ جن کو زینت دی گئی ہے ستاروں کے ذریعے سے، خود اس سماء دنیا کے کئی ملین سورج ہیں جن کے اوپر کئی کروڑ کہکشانیں اور ان کئی ارب اشیاء ان کے ماورا ہیں جن کا علم خدا کو ہے۔ انسان ابھی عالم مادہ تک ہی رسائی حاصل نہیں کرسکا، نہ اس کے اوج وبلندی کی جانب اور نہ اس کی پستی وگہرائی کی جانب کہ جو ایسے ذرات پر ختم ہوتی ہے جو اتنے چھوٹے اور حجم کے اعتبار سے اس قدر باریک ہیں کہ ان کو فقط آلات کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے، ان کا بھی مشاہدہ کرے لیکن ان نہایت چھوٹے ذرات کو انسان نہیں جان سکا‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۱۷، ص ۵۲۶)
اس کے بعد امام خمینی (ره) اس تجزیے کو، کہ قرآن کی نظر بطلیموسی اجرام فلکی کے برخلاف سات کے عدد سے کہیں بالاتر ہے اور یہ زمین وآسمان کے کرات اور ستارے، کہکشانیں اور اس جہان کے نزدیک ترین آسمان ہیں، پیش کرنے کے بعد آیت کے اخلاقی پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور ان مطالب سے عہدے اور اقتدار کے خطرات اور یہ کہ یہ عہدے تخلیق کائنات اور الٰہی مخلوقات کے مقابلے میں ایک حقیر سی چیز ہے، کی یاد دہانی کیلئے فائدہ اٹھاتے ہیں :
’’انسان کی اصل کمزوری خود پرستی اور جاہ طلبی ہے۔ انسان کتنا کمزور ہے کہ خیال کرتا کہ وہ اس دنیا میں ہے اور اس شہر میں زندگی بسر کر رہا ہے، اس ملک میں رہ رہا ہے، لہذا اس کو خود پرستی وخودنمائی کرنی چاہیے۔ انسان کتنا جاہل ہے کہ ان چیزوں کو عہدہ ومنصب سمجھنے لگ جاتا ہے اور کتنا ضعیف النفس ہے کہ حکومت کو، بلکہ حکومتوں اور عہدوں کو باعث فخر سمجھنے لگ جاتا ہے‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۱۷، ص ۵۲۶)
امام خمینی (ره)نے آیت { قُلْ لَو کانَ الْبَحْرُ مِداداً لِکلِماتِ رَبي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ کلِماتُ رَبي}( کہہ دو کہ اگر تمام سمندر تیرے پروردگار کے کلمات کو لکھنے کیلئے سیاہی بن جائیں، سمندر ختم ہوجائیں گے لیکن تیرے پروردگار کے کلمات ختم نہ ہوں گے۔کہف ؍۱۰۹)کی تفسیر میں بھی آیات سے استفادے، جدید علمی مسائل بیان کرنے اور جدید ہیئت کے منابع سے استفادے کی یہی روش اختیار کی ہے:
’’خداوند عالم کے فعل کی عظمت کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ عالم ہائے اشباح واجساد جو ثابت شدہ ہیں اور جو کچھ ان میں موجود ہے ان کی عالم ملکوت سے نسبت ایسے ہے جیسے خود زمان ووقت مطلق کے مقابلے میں ایک لحظہ ہو اور خود عالم ملکوت بھی عالم جبروت کی نسبت اسی طرح سے ہے، بلکہ ان دو میں تو کوئی نسبت ہی نہیں ہے اور جو کچھ بھی آج تک ان منظومہ ہائے شمسی کے بارے میں معلوم ہوا ہے وہی ۱۴ ملین ہے کہ جن میں سے ہر ایک ہمارے منظومہ شمسی میں موجود افلاک، سیارے اور اقمار اور ان کی تابع موجودات کی مانند ہے یا پھر ان مراتب سے وسیع وعریض ہیں حتی کہ ہمارا منظومہ شمسی بھی ان میں سے کسی ایک کے گرد گھومتا ہے، نیچون ہمارے منظومہ شمسی کا دورترین سیارہ ہے جدیدترین سائنسی تحقیقات کے مطابق اس کا فاصلہ سورج سے ۲۷۴۶۵ ملین میل ہے‘‘۔(شرح دعائے سحر، ص ۳۳)