یہ انسان دوسرے حیوانات کی مانند صرف دنیوی ومادی حیات کا مالک نہیں ہے، بلکہ انسان اس طرح خلق ہوا ہے کہ جو طبیعی ومادی حیات کے علاوہ ماوراء الطبیعہ زندگی کا بھی مالک ہے اور یہ ماوراء الطبیعہ زندگی ہی انسان کی اصلی زندگی ہے۔ یہاں دنیا کی زندگی صرف حیوانی زندگی ہے۔ چنانچہ اس لحاظ سے لوگ اس بات کے محتاج ہیں کہ انہیں وحی کے ذریعہ راہ راست کا پتہ بتایا جائے اور خداوند عالم نے انبیاء کو مبعوث کر کے انسانوں پر احسان کیا ہے تاکہ وہ لوگوں کو صحیح راہ دکھائیں ۔
تمام انبیاء کی تعلیمات کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو وہ راہ دکھائی جائے کہ جس پر قدم اٹھانا انسان کیلئے ناگزیر ہے۔ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی اس عالم مادہ سے ایک اور عالم کی طرف منتقل ہوجائے گا۔ اگر وہ خودسر اور ضدی ہو تو وہ ایک حیوانی وجود کے ساتھ اس عالم سے دوسرے عالم کی طرف سفر کر جائے گا۔ لیکن اگر وہ انبیاء کے بتائے ہوئے راستے پر قدم اٹھائے تو نہ صرف یہ کہ اس کی انسانیت کی تکمیل ہوگی، بلکہ وہ جتنی زیادہ اطاعت کرے گا۔ اس کی انسانیت اتنی ہی زیادہ ترقی کرے گی۔ تمام انبیاء کی کوششیں صرف اسی لیے تھیں کہ انسان کی تعمیر، اس کی قوتوں کی تعدیل اور اسے ایک مادی انسان کے دائرے سے نکال کر الٰہی انسان میں تبدیل کریں اور اسی عالم مادہ میں اس کی تربیت کریں ۔ انبیاء اس بات کے خواہشمند ہیں کہ اس دنیا کو الٰہی دنیا بنائیں ، یعنی جس جہت وزاویے سے اسے دیکھیں ، اس میں الٰہیت کو ہی پائیں ۔
صحیفہ امام، ج ۹، ص ۱۱