مسلمان قرآن کی تلاوت اس کی آیات کی ترتیب کی بنیاد پر کرتے ہیں اور اس کی ترتیب وتنظیم کی خاص اہمیت کے قائل تھے اور ہیں ۔ اسی لیے مفسرین نے شروع سے تفسیر کے باب میں اسی ترتیب کا خیال رکھا اور اسے اہمیت دی اور کلمات قرآنی کے معانی کی تشریح کیلئے بھی مصحف کے ترتیبی اسلوب کو مدنظر رکھا ہے۔ البتہ قدیم زمانے سے ہی ایک اور گروہ بھی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ یہ گروہ آیات کی تشریح اور ترتیب کا خیال رکھنے کے بجائے موضوع کا انتخاب کرتا ہے اور معین عنوان کی تشریح وتفسیر کرتا ہے۔
تفسیر ترتیبی میں قرآن کی آیات کی یکے بعد دیگرے تشریح اور کلمات وجملات کی تفسیر کی جاتی ہے۔ تفسیر موضوعی میں آیات کی تفسیر ایک سوال یا موضوع کے پیش نظر کی جاتی ہے۔ تفسیر موضوعی کی ضرورت کیلئے اس حقیقت کو نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر ہم کسی ایک موضوع کے مسائل ومعارف اور انسان کی حاجات وضروریات کے بارے میں قرآن کی فکر ونظر معلوم کرنا چاہیں تو ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں کہ ایک جیسے موضوع، ایک جیسے مضمون اور آپس میں مرتبط آیات کا ایک ساتھ جائزہ لیں ۔ اسی وجہ سے بہت سی قرآنی تفاسیر، تفسیر ترتیبی کے زمرے میں داخل ہونے کے باوجود قرآنی موضوعات کا جائزہ لیتی ہیں اور ایک جیسی آیات یکجا کر کے مختلف موضوعات کے بارے میں قرآن کا نقطہ نظر پیش کرنے کی کوشش کرتی ہیں جن میں سے ’’تفسیر المنار‘‘ اور گرانقدر ’’تفسیر المیزان‘‘ کی جانب اشارہ کیا جاسکتا ہے کہ جو مختلف موضوعات میں قرآنی ابحاث سے سرشار ہیں ۔
جہاں تک امام خمینی (ره)کی تفسیری ابحاث کا تعلق ہے تو انہوں نے ان کو موضوعاتی شکل میں پیش کیا ہے اور ایک موضوع پر گفتگو کی ہے اور آیات کو ان کی اسناد اور شواہد کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس تفسیر میں ایسی بہت سی بحثیں دکھائی دیتی ہیں جن میں انسان کے مسائل، اس کی بنیادی ضروریات اور معارف اسلامی کو ایک مجموعے کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ گویا تمام آیات کا ایک سوال یا موضوع کے تناظر میں جائزہ لیا گیا ہے۔ فرق یہ ہے کہ موضوعاتی مفسرین قرآن کے زاویہ نگاہ کے استنباط کیلئے ایک موضوع اور مضمون سے متعلق آیات کو یکجا کر کے ان کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں لیکن امام خمینی (ره) آیات وروایات کے درمیان جمع کر کے اور خاص آیت کا سہارا لیتے ہوئے اپنے ہدف ومقصد کی جانب بڑھتے ہیں ۔
البتہ ایک نکتے کی یاد دہانی ضروری ہے کہ موضوعات کے انتخاب کے سلسلے میں امام خمینی (ره)کی تفسیر میں عرفانی رجحانات کے اثرات واضح نظر آتے ہیں اور ان ابحاث کے مجموعے میں بعض موضوعات نمایاں دکھائی دیتے ہیں ، ہم ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں :
الف: ’’انسان کامل‘‘ اس موضوع کے سلسلے میں یہ بحث کی جاتی ہے کہ انسان کون ہے؟ اس کے کمال کا سرچشمہ کیا ہے؟ اور اس انسان کی خصوصیات کیا ہیں ؟ کس چیز کی معرفت وآگاہی حاصل کرتا ہے اور اس کیلئے کونسا علم سب سے بہتر ہے اور مراتب ہستی میں کیسے تجلی کرتا ہے اور اپنے وجود کی نشاندہی کرتا ہے۔ انسان کامل اور قرآن کا باہمی تعلق کیا ہے اور کس چیز کے ساتھ جامعیت حاصل کرتا ہے؟ (شرح دعائے سحر، ص ۵۵، ۱۲۱)
ب: سیر وسلوک کے مراتب ومقامات جیسے علم، ایمان، اطمینان قلب اور وہ مشاہدات ومشکلات جن کا عارف انسان سامنا کرتا ہے اور وہ حجابات کہ جو مراتب ومقامات تک پہنچنے میں رکاوٹ ہیں ۔ اگرچہ یہ بحث پراکندہ صورت میں بیان کی گئی ہے لیکن امام خمینی (ره)کی اکثر کتابوں وتالیفات میں یہ بحثیں ہیں ۔ اسی وجہ سے اس کے بارے میں جداگانہ بحث اور قرآن وحدیث سے متعلق اصولوں اور زاویہ ہائے نگاہ کے جائزے کی گنجائش پائی جاتی ہے۔( آداب الصلاۃ، ص ۱۰ اور ۴۰ ۔ ۵۲، ۱۶۴ )