اسی سلسلے میں امام خمینی (ره)کے آثار میں بہت سی مثالیں نظر آتی ہیں خصوصاً ان مقامات پر جہاں بحث کلامی پہلو اور اثبات امامت کی شکل اختیار کرتی ہے اور ان کے مقام کو قرآن کے ذریعے ثابت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، مثال کے طورپر امام خمینی (ره) اس آیت { اِني جاعِلُکَ لِلنٰاسِ اِمٰاماً قالَ وَمِنْ ذُرِّیتِي قٰالَ لاٰ یَنالُ عَہْدِی الظّٰالِمِین} (بقرہ ؍۱۲۴) کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : اہل سنت کے طریق سے اس آیت کے بارے میں دو احادیث وارد ہوئی ہیں جن میں سے ایک میں یہ بات کہی گئی ہے کہ پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا ہے: ’’میں ابراہیم کی دعا کا حصہ ہوں ‘‘۔(ابن مغازلی، المناقب، ص ۲۷۶)
اسی طرح اس آیت { فَسْئَلُوا أَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاٰ تَعْلَمُون}(نحل ؍۴۳) کی تفسیر میں اہل سنت کی ایک حدیث نقل کرتے ہیں جس میں آیا ہے کہ اہل ذکر سے مراد حضرت علی بن ابی طالب (ع) ہیں یا اس آیت { اِنَّما أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِکُلِّ قَومٍ ہٰاد } (رعد؍۷) کے بارے میں فرماتے ہیں : ایسی احادیث موجود ہیں کہ جس میں ’’مُنذر‘‘ سے مراد پیغمبر اکرم ﷺ اور ہادی سے مراد علی ابن ابی طالب ؑہیں (کشف اسرار، ص ۱۳۶)
امام خمینی(ره)دو طرح سے بحث کرتے ہیں ، ایک یہ کہ ’’ آمَنُوا وَاتَّقُوا ‘‘ جیسا ہر لفظ خالصتاً اولیائے الٰہی، ائمہ معصومین ؑیا خاص اشخاص پر منطبق ہوتا ہے اور روایات میں بھی خاص اشخاص کے بارے میں یہ شان نزول بیان ہوئے ہیں جبکہ ہم ان سے مطلق مراد لیتے ہیں اور جب قرآن کی آیات میں مومنین اور متقین پڑھتے ہیں تو ان کو ان (مومنین ومتقین) کے تمام مراتب کے حقائق پر حمل کرنا چاہیے، کیونکہ یہ الفاظ ہر قید وبند سے صرف نظر کرتے ہوئے ان موضوعات کیلئے عناوین ہیں ۔ اس صورت میں امام خمینی (ره)تحریر فرماتے ہیں :
’’اس بنا پر یہ ہر گروہ اور مومنین کے ہر طبقے پر حقیقی معنی میں منطبق ہیں جبکہ اسی عنوان کے مصادیق مطلق وعمومی ہیں اور یہ مطلب ایسی بہت سی اخبار وروایات کے فہم کی کلید ہے جن میں آیات کو فقط ایک شخص یا ایک گروہ پر تطبیق کیا گیا ہے کہ جس سے ان آیات میں موجود افراد وموارد کے خاص یا خصوصی ہونے کے بارے میں وہم پیدا ہوتا ہے جبکہ درحقیقت ایسا نہیں ہے، بلکہ یہ مصداق یا مصادیق کا ذکر ہے‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۱۸، ص ۵۱۸)
امام خمینی(ره) کا دوسرا تجزیہ ایسے مقامات پر ہے جہاں روایات کے مختلف معانی بیان کئے گئے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان روایات میں تعارض پایا جاتا ہے، مثال کے طورپر اس آیت { فَأَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّینِ حَنِیْفاً فِطْرَۃَ اﷲِ الَّتِي فَطَرَ النٰاس عَلَیہا} (سورۂ روم ؍ ۳۰) کے سلسلے میں وارد ہونے والی مختلف روایات میں اس فطرت سے مراد توحید کو لیا گیا ہے۔ بعض میں فطرت، اسلام کے معنی میں آیا ہے اور بعض جگہ معرفت اور امامت کے معنی میں ذکر ہوا ہے۔
امام خمینی(ره) نے ان روایات کے سلسلے میں جو جواب دیا ہے اور ان روایات کے درمیان جمع (ہم آہنگی پیدا کرنے) سے متعلق جو عقلی توجیہہ بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ یہ اخبار وروایات مصداق کو بیان کرتی ہیں یا خود امام خمینی (ره)کے الفاظ میں یہ شئے کے اشرف جزء یا اشرف مصداق کی تفسیر ہے اور اگر کہیں پر اس چیز کا مشاہدہ ہو کہ ائمہ معصومین (ع) نے کسی مقام کی مناسبت سے مصداق کو ذکر کیا ہے اور دوسرے ان مصادیق میں تعارض کا گمان کرتے ہیں تو ان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ روایات آیت کے آخری اور انتہائی معنی کو بیان نہیں کرتیں اور یہاں فطرت فقط توحید سے مختص نہیں ہے بلکہ معارف حقہ کا مجموعہ ان امور میں سے ہے کہ جو فطرت کے معنی کو شامل ہے۔( شرح چہل حدیث، ص ۱۸۰)