امام خمینی کا رویہ نہایت پدرانہ اور مسالمت آمیز تھا اور آپ ثقافتی امور کے ذریعے، مسلح افواج کو اپنی طرف مجذوب کرنا چاہتے تھے۔
اس نشست میں سردار مہدی کیانی کا کہنا تھا: ایران عراق جنگ کا باقاعدہ آغاز ۲۲ ستمبر ۱۹۸۰ء کو ہوا، تاہم صدام، بعثی حکومت کے صدر مملکت نے بہت پہلے جنگ شروع کرچکے تھے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ابتدائی ایام میں صدام کی جارحانہ پالیسی اس بات کی عکاسی کرتی ہےکہ جنگ کا آغاز ۲۲ ستمبر ۱۹۸۰ء سے کافی عرصہ پہلے ہوچکا تھا۔
امیر سید تراب ذاکری نے کہا: 1975ء کو الجزائر میں منظور ہونے والی قرارداد پر دستخط کے بعد، صدام نے عراقی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اسے " بدن کے کسی عضو کو کاٹنے کے بہادرانہ عمل" سے تعبیر کیا جو مذکورہ قرارداد کے حوالے سے اس کے احساسات کی عکاسی کرتی ہے۔
البتہ اس حوالے سے شکوے کے طور پر یہ بات قابل ذکر ہےکہ میں نے انٹیلی جنس حکام کو اس حوالے سے آگاہ کیا تھا مگر انہوں نے اس کی پرواہ نہیں کی۔ جب جناب غرضی نے پارلمینٹ میں حاضر ہوکر اس مسئلے کو اٹھایا تو انہیں جواب دیا گیا کہ ہم نے امریکہ کے سینگ کو کاٹا ہے اور عراق کی ہمارے سامنے تو کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس طرح اس وقت فراہم ہونے والی اطلاعات پر توجہ نہیں دی گئی۔ میں نے حجت الاسلام کاملان کی وساطت سے بعثی افواج کی حرکات سے متعلق خدشات کو تحریری طور پر امام کی خدمت میں پیش کیا اور امام نے مجھے تحریری جواب دیا، تاہم بہت دیر ہو چکی تھی۔
سردار کیانی نے اضافہ کیا: جن باتوں کی جانب امیر صاحب نے اشارہ کیا ہے، حقیقت پر مبنی ہے۔ ہم نے عراقی فورسز کو اسیر بھی بنایا تھا اور مختلف اداروں کو اس کی اطلاع بھی دی تھی۔
میں نے جناب شمخانی جو اس وقت خوزستان کے کور کمانڈر تھے، کو خط لکھا کہ صورتحال قابو سے باہر ہے، تاہم فوجی افسروں کا خیال تھا کہ ایران اب بھی علاقے کا سپر پاور ملک ہے اور عوامی فورسز کا کہنا تھا کہ ہم نے امریکہ کو شکست دی ہے تو عراق کون ہوتا ہے!!
ہم ان واقعات کی گنتی کے ساتھ اپنی بساط کے مطابق عراقی افواج کی ممکنہ جارحیت کے مقابلے کےلئے تیاری بھی کر رہے تھے، تاہم یہ تیاری اس قدر نہ تھی جو ہر قسم کے ہتھیار سے مسلح عراقی افواج کے ساتھ نمٹنے کےلئے کافی ہوتی۔
میرا خیال ہےکہ ہماری جنگ عوامی جنگ تھی یہاں تک کہ ہماری مسلح افواج بھی عوام سے متاثر تھی۔
نشست کا تیسرا مہمان، جناب کرنل محمد علی شریف نسب نے اپنے سخن کا آغاز کیا اور کہا: 1963ء اور اس سے پہلے آرمی کے ساتھ امام خمینی کا رویہ نہایت پدرانہ اور مسالمت آمیز تھا اور آپ ثقافتی امور کے ذریعے، مسلح افواج کو اپنی طرف مجذوب کرنا چاہتے تھے اور اینٹی ملٹری انٹیلی جنس کی اکثریت بھی ہمارے ساتھ تھی، وہ گمراہ بہائی فرقے کے آرمی میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے متعلق ہمیں آگاہ کرتے رہتے تھے، اس وقت مسلح افواج کی مثال اس قہرمان اور ہیرو کی مانند تھی جس کے دونوں ہاتھ پیر بندھے ہوۓ ہوں۔ امام کا آرمی پر ایمان و اطمینان تھا لیکن اس وقت ان کے بال و پر کو جگڑ دیا گیا تھا۔
ہمارا عقیدہ ہےکہ پہلے مرحلے میں مسلح افواج کا ایمان ہے جو کام کو آگے بڑھا سکتا ہے اور اس کے بعد اسلحہ کی نوبت آتی ہے۔
مہدی کیانی نے پھر سے اظہار خیال کیا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ عراق کی جانب سے جنگ کی شروعات کی گئی۔ اگرچہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد، بعض ناخشگوار واقعات کے نتیجے میں ممکنہ طور پر کچھ بدنظمیاں ہمارے یہاں پائی جاتی ہوں، لیکن یہ محرکات جنگ نہیں ہو سکتی۔
ایران عراق جنگ میں جناب ہاشمی رفسنجانی کی نظامت اور ہوشیاری کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، میں نے ہاشمی صاحب سے متعدد دفعات میں اختلاف رائے کی اور اس کے باوجود میری دعا ہےکہ اللہ تعالی ان کی عاقبت بخیر کرے اور سلامتی عطا کرے، آپ نے ان تمام پیغامات کو امام تک پہنچایا جس کے نتیجے میں آخرکار مسلط کردہ عراقی ایران جنگ ختم ہوئی۔
اس نشست کے آخر میں شریف نسب نے اظہار خیال کیا کہ بنی صدر اسلامی جمہوریہ ایران کا صدر تھا اور امام نے تمامتر امکانات اور اختیارات ان کے ہاتھ سپرد فرمایا لیکن وہ جنگی مسائل سے آشنا نہ تھا، اس کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ اس نے سیاسی اعتبار سے ملک کو ایک خطرناک ماحول کی طرف دھکیل دیا تھا جس کے نتیجے میں ملک، افراتفری کا شکار ہوا تھا اور ہر طرح سے حکام مشکلات میں گرفتار تھے جس کی وجہ سے موصولہ رپورٹوں پر توجہ دینے سے حکام، عاجز تھے۔
ماخذ: جماران خبررساں ویب سائٹ