میں چاہتا ہوں کہ تم اصل معنی اور معنویت کا انکار نہ کروگی، وہی معنویت کہ جس کا ذکر کتاب و سنت میں آیا ہے۔
تصوف، ایک ایسا مکتب ہے جس کی بنیاد پشمینہ پوشوں نے ڈالی ہے، جو معنوی خودسازی اور ظواہر دنیوی سے دوری کا دعوی کرتے ہیں۔
صوفی تعلیمات کو نہ کلی طور پر قبول کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی سو فیصدی مسترد، کیونکہ اس کی تعلیمات، صحیح دینی تعلیمات اور غلط بدعتوں پرمشتمل ایک ترکیب ہے۔
جس قدر امام خمینی{رح} معنوی خودسازی پر تاکید فرماتے ہیں اسی انداز میں صوفی نما افراد اور ان کی بدعت پرمشتمل تفکرات کی شدید تنقید کرتے ہیں۔ پس، اگرچہ امام خمینی{رح} ایک برجستہ عارف شمار ہوتے ہیں، لیکن کسی صورت میں انہیں عام طور پر مشہور نام نہاد صوفی ہونے کا الزام نہیں لگایا جانا جاسکتا ہے۔
اسلام، ایک ایسا مکتب ہے، جو انسانوں کےلئے دنیا و آخرت میں سعادت و خوش قسمتی کا متمنی ہے اور انسان، اسلامی تعلیمات سے استفادہ کرکے اپنی مادی و معنوی ضرورتوں کو پورا کرسکتا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو دنیا پرستی سے اجتناب کرنے اور عالم آخرت کی طرف توجہ کرنے کی دعوت دینے کے ضمن میں اس نکتہ کی طرف بھی نشاندہی کی ہےکہ آخرت کی طرف توجہ کرنا دنیا سے متعلق تمام سرگرمیوں کو تعطیل کرکے گوشہ نشینی اختیار کرنے کے بہانہ کا سبب نہیں بننا چاہئیے۔
اس بنا پر، حقیقی مسلمان وہ ہےکہ جو دنیا پرست نہ ہو اور خداوند متعال سے اپنے لئے دنیا و آخرت کی خیر و فلاح طلب کرے۔
حضرت ابوذر غفاری{رض} جیسی عظیم شخصیت اور زاہد زمان فرماتے تھے:
دوپہر اور شام کےلئے روٹی کے دو لقمے اور لباس زیب تن کرنے کےلئے اونی کپڑے کے دو ٹکڑے، ایک لونگی کے طور پر اور دوسرے کو شانوں پر رکھنے کےلئے، میرے پاس ہوں، تو مجھے دنیا سے کیا واسطہ ہے؟
اس طرح آپ {رض} لوگوں کو سنانا چاہتے تھےکہ، ضرورت کی صورت میں انسان کم از کم پر اکتفا کرسکتا ہے، لیکن اپنے دین کو دنیا کے عوض سودا نہیں کرتا۔ لیکن افسوس، مسلمانوں کے ایک گروہ، زہد و تقوی اور ترک دنیا کے موضوع کے بارے میں افراط سے کام لے کر اس قدر آگے بڑھے کہ اونی کپڑا زیب تن کرنے کو مسلمانی کا مظہر سمجھ کر، حتی ائمہ اور بزرگان دین کو بھی اس کی رعایت نہ کرنے پر تنقید کا شکار بنانے لگے۔
زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ، اس مکتب کے مشایخ کی طرف سے ان کے مریدوں کےلئے رفتار و کردار کے دوسرے معیار بھی اعلان کئے گئے ہیں کہ ان میں سے بعض شرعی اور دینی استناد سے عاری ہیں۔
اس امر کا یہ نتیجہ نکلا ہےکہ جو مسلمان خودسازی اور خداوند متعال اور معصومین{ع} کی سفارش کئے گئے احکام و دستورات پر عمل کرتے ہیں، کے خلاف بھی بعض ظاہر بین اور کج فہم افراد کی طرف سے صوفی گرائی اور درویش مآبی کا الزام لگایا جاتا ہے۔
ہم بخوبی جانتے ہیں کہ امام خمینی{رح} ایک ایسے شخص تھے، جنھوں نے ابتدائی جوانی سے معنوی خودسازی کی راہ پر قدم رکھا تھا اور انھوں نے اس طریقہ کار کو اپنی زندگی کے آخری لمحات تک محفوظ رکھا۔ اس لحاظ سے ان کے کلام اور اشعار میں بعض اوقات صوفیوں جیسے مطالب اور اصطلاحیں پائی جاتی ہیں کہ پہلی اور سرسری نگاہ میں ان کا تمائل "تصوف" کی طرف لگتا ہے جبکہ اس امر کی طرف توجہ کرنا ضروری ہےکہ ان اشعار میں استعمال کی گئی اصطلاحات، کچھ ایسے حقائق کی طرف اشارہ ہےکہ شائد انھیں کھلم کھلا بیان نہیں کیا جاسکتا تھا، ورنہ ہم جانتے ہیں کہ امام خمینی{رح} نے اپنی پوری زندگی میں نہ کوئی کشکول اپنے شانوں پر اٹھایا ہے اور نہ کسی خانقاہ میں جاتے تھے۔
امام خمینی{رح} فرماتے تھے: مناجات کا ایمان رکھیں، ان کا انکار نہ کریں، یہ نہ کہیں کہ یہ درویشوں کا کلام ہے۔ یہ تمام مسائل قرآن مجید میں ہیں اور ظرافت کے ساتھ ہماری دعاؤں کی کتابوں میں ائمہ اطہار{ع} سے نقل کئے گئے ہیں ... جن لوگوں نے بعد میں ان اصطلاحات سے استفادہ کیا ہے، شعوری یا لاشعوری طور پر انھوں نے انھیں قرآن مجید اور احادیث سے لیا ہے اور ممکن ہےکہ وہ ان کی اصل سند کو بھی نہ جانتے ہوں/۔
صحیفه امام، ج17، ص58۔
اس بنا پر، امام خمینی{رح} کے نظریہ میں صوفی اور درویش کی نشانیوں کی موجودگی کی وجہ سے ڈر کر، معنوی خودسازی کو نہیں چھوڑنا چاہئے اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ امام {رح} صوفیوں کے تمام رفتار و کردار کی تائید کرتے ہیں۔
امام خمینی{رح} ایک دوسری سفارش میں اپنی بہو ﴿سید احمد خمینی کی شریک حیات﴾ سے یوں خطاب فرماتے ہیں: میں مدعیوں کی صفائی پیش کرنا نہیں چاہتا ہوں کہ ممکن ہے ان کا خرقہ آگ کا مستحق ہو، میں چاہتا ہوں کہ تم اصل معنی اور معنویت کا انکار نہ کروگی، وہی معنویت کہ جس کا ذکر کتاب و سنت میں آیا ہے اور اس کے مخالفوں نے ان سے چشم پوشی کی ہے یا جاہلانہ توجیہ کی ہے/۔
صحیفه امام، ج18، ص453۔
اس لئے اگر ہم امام خمینی{رح} کا کوئی ایسا کلام دیکھیں جس سے ظاہری تصوف اور درویش مآبی کی مہک آتی ہو، تو ہمیں اسے نام نہاد صوفیوں اور درویش مآبوں کی تائید نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ ہمیں اس کی قرآن و سنت کے مطابق جانچ کرنی چاہئیے۔