امام خمینی (ره) نے شرعی قوانین کے شیرازہ کے بارے میں ایک قاعدہ کلی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے :
’’کیونکہ انصاف و عدالت کے معیار کے مطابق قوانین کا نفاذ، ظالموں اور ظالم حکومت کو لگام دینا، انفرادی اور معاشرتی عدالت کی ترویج بے راہ روی، فحشاء اور گمراہیوں سے باز رکھنا، عقل اور عدالت کے مطابق آزادی ، خودمختاری، خود کفالت، استعمار، استحصال اور استعباد کی روک تھام، عقل، عدل اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے حدود، قصاص اور تعزیرات کا نفاذ اور دیگر ایسی سینکڑوں چیزیں ایسی نہیں ہیں کہ جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی تاریخ اور معاشرتی زندگی میں پرانی ہوجائیں ایسا دعویٰ کرنا یہ کہنے کے مترادف ہے کہ موجودہ صدی میں عقلی اور ریاضی کے اصول و قواعد بدل کر ان کی جگہ نئے اصول و قواعد لائے جانے چاہئیں ‘‘۔ (صحیفہ امام، ج۲۱، ص ۱۷۷)
آپ نے کتاب البیع میں اسلامی حکومت اور اس کے قوانین سے متعلق ایک مجموعی جائزہ یوں لیا ہے:
’’اسلام نے ایک عادل حکومت کی تشکیل کی آواز بلند کی ہے۔ اسلامی حکومت کے بعض قوانین کا تعلق بیت المال اور ٹیکسوں سے ہے اور اس سے کہ عدالت کی بنیاد پر تمام طبقات سے ٹیکس وصول کئے جائیں اور بعض قوانین کا تعلق قصاص، حدود اور دیت جیسی سزاؤں سے متعلق ہیں اور اگر ان پر عمل کیا جائے تو جرائم کا اگر مکمل خاتمہ نہ ہو تو کم از کم ان میں کمی ضرور آجاتی ہے اور ان سے پیدا ہونے والی مثلاً نشہ آور چیزوں کے استعمال اور ظاہری اور باطنی قبیح گناہوں سے جنم لینے والی برائیوں کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور بعض قوانین فیصلوں اور عدالت و آسانی پر مبنی حقوق سے ہے‘‘۔ (کتاب البیع ، ج ۲، ص ۴۶۰)
امام خمینی(ره) کے نزدیک ایسی ملک میں تصرف کرنا جو مالیت نہ رکھتی ہو حرام ہے ، کیونکہ یہ ظلم ہے۔ (کتاب البیع، ج1، ص 451)
جیسا کہ واضح ہوا کہ قوانین کی شیرازہ بندی عدل کی بنیاد پر استوار قرار دی گئی ہے۔ امام خمینی(ره) نے سود کی حرمت کے بارے میں اور اس بارے میں کہ شرعی ہتھکنڈوں سے اس کی حرمت زائل نہیں ہوتی ہے، فرمایا:
’’زیادہ لینا ظلم ہے اور زیادہ لینا جو کہ سود کہلاتا ہے کی حرمت کی وجہ یہی ظلم ہے دوسرے لفظون میں ظلم ہی سود کے حرام ہونے کی وجہ و علت ہے‘‘۔ (کتاب البیع، ج۲، ص ۲۰۷)
جیسا کہ مذکورہ عبارت سے واضح ہوجاتا ہے کہ عدل و ظلم علل و احکام کے سلسلے میں واقع ہوتے ہیں اور وجوب و حرمت ان دو امور کے معلول ہیں۔