مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی تاریخ، بین الاقوامی تعلقات اور قانون میں ایم فل ہیں، آئی ایس او پاکستان کے مرکزی صدر رہ چکے ہیں، اس دوران متحدہ طلبہ محاذ کی قیادت بھی کرتے رہے ہیں، ملکی اور عالمی حالات پر گہری نظر رکھنے والے درد مند پاکستانی سیاسی رہنماء کیساتھ مشرق وسطٰی میں آنیوالی تبدیلیوں اور پاکستان میں نت نئی بدلتی صورتحال کے حوالے سے اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
اسلام ٹائمز: پاکستان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکیوں کا جواب دیتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلی کا فیصلہ کر لیا ہے، جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ٹرمپ نے پاکستان کا نام بھی نہیں لیا، کیا کہیں گے۔؟
سید ناصر عباس شیرازی: میرے خیال ایسی صورتحال نہیں ہے کہ پاکستان نے خارجہ پالیسی میں بنیادی اور جوہری تبدیلی کا فیصلہ کر لیا ہے، لیکن پاکستان ایک ایسے دوہراہے پر ہے، جہاں اسے انتخاب کرنا پڑے گا، اس انتخاب کے بغیر پاکستان آگے چل نہیں سکتا، اسوقت امریکی اور چینی کسی ایک بلاک میں رہ سکتا ہے، امریکی بلاک میں سعودی اور اسرائیل ہیں جبکہ چینی بلاک میں ایران اور روس ہیں، جو ایک ریجنل بلاک کی صورت بنتی ہے۔ اس بات کا امکان اسوقت نہیں ہے کہ پاکستان ایک وقت میں دونوں کشتیوں کا سوار رہ سکے، لیکن اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ جن پاکستانی پالیسی سازوں پر امریکہ، سعودیہ اور یہودی لابی نے کئی دہایئوں تک کام کیا ہے، جو فیصلوں پر اثر انداز ہوسکتے ہیں، جن کی قلبی وابستگیاں آل سعود اور امریکیوں کیساتھ ہیں، جنہوں نے ہمیشہ قومی مفاد کو پس ِ پشت ڈال کر ذاتی مفاد کو ترجیح دی ہے، وہ پاکستان کو امریکی بلاک سے آسانی سے الگ نہیں ہونے دینگے۔ فی الحال پاکستان کو مشکل دور سے گزرنا ہوگا، لیکن فطری طور پر ہمیں امریکہ کے مخالف بلاک کا حصہ بننا ہوگا، تب ہی سی پیک چل سکے گا، تب ہی دہشت گردی کا مقابلہ ہوسکے گا، تب ہی تکفیریت کا خاتمہ ہوسکے گا، تب خطے میں مستحکم پاکستان کا خواب ہم پورا کرسکتے ہیں۔ جیسا کہ امام خمینی نے فرمایا کہ امریکہ کی دشمنی سے نہیں بلکہ امریکہ کی دوستی سے بچو، اگر آج ٹرمپ نے پہلے پاکستان کے خلاف دشمنی کا اظہار کیا ہے، بعد میں جنرل اسمبلی سے خطاب میں پاکستان کا نام نہیں لیا تو یہ ایک اچھا آغاز ہے، بشرطیکہ نیچرل انداز میں اس کا تسلسل برقرار رہے، پاکستان امریکہ کے مخالف بلاک میں کھڑا رہے تو یہی خیر پہلو اجاگر ہوتا جائیگا۔
اسلام ٹائمز: جنرل قاسم سلیمانی نے دو ماہ بعد داعش کے خاتمے کا اعلان کیا ہے، شام میں داعش کیخلاف فتح کیسے ممکن ہوئی، اسکے کیا اثرات ہونگے۔؟
سید ناصر عباس شیرازی: شام میں مزاحمتی اور مقاومتی بلاک کو جو فتح نصیب ہوئی ہے، ہوسکتا ہے کوئی کہے کہ اس میں روس شامل ہے، کوئی یہ کہے کہ یہ بدلتے ہوئے عالمی حالات کی وجہ سے ہے، کوئی یہ کہے کہ چین کے یو این او میں آٹھ ویٹوز ہیں، کوئی یہ کہے کہ اس میں جمہوری اسلامی کی ریاستی پالیسی کا عمل دخل ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگ بنیادی طور پر شہداء کے مقدس خون نے جیتی ہے، یہ جنگ بنیادی طور پہ سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کی محبت اور عشقِ امام حسین علیہ السلام نے جیتی ہے، یہ جنگ مہدویت کی آئیڈیالوجی اور نظریئے نے جیتی ہے، یہ محور تھا اور کچھ اتحادی ساتھ آئے ہیں۔ کم از کم تین شخصیات کے بارے میں کہہ سکتا ہوں، ایک سید حسن نصراللہ، ایک خود رہبر معظم سید علی خامنہ ای، ایک جنرل قاسم سلیمانی ہیں، انکا کوئی پولیٹیکل دعویٰ نہیں آیا، کوئی بڑھک نہیں دیکھی، لیکن انہوں نے جو کچھ کہا ہے وہ پورا ہوا ہے، بعض باتیں اچھنبے والی لگتی ہیں، جیسا کہ خود آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا یہ کہنا بشار الاسد باقی رہیگا، جبکہ شام میں 2 لاکھ 50 ہزار دہشت گرد نفوذ کرچکے تھے، تمام سرحدی ممالک شام کے مخالف تھے، امریکی پوری طاقت اور مکاری کیساتھ میدان میں شامل تھے، نیٹو اور اقوام متحدہ انکی پشت پر تھے، لیکن نتیجہ ان کے حق میں نہیں آیا۔ میں سمجھتا ہوں یہ جنگ اسوقت دو بلاکوں کی جنگ ہے، ایک مہدویت اور ایک مہدویت کے مخالف بلاک کی جنگ ہے۔ مہدویت کے حامی بلاک کی قیادت اسلامی انقلاب کے پاس ہے، مہدویت کے مخالف بلاک میں سعودی ہیں، جیسا کہ شاہ سلمان کے بیٹے محمد بن سلمان نے کہا کہ ہم اس ملک سے کیسے تعلقات قائم کرسکتے ہیں، جسکا کام مہدی علیہ السلام کی حکومت کیلئے زمینہ سازی کرنا ہے، یہ دو مورچے ہیں، یہ دور منتقم آلِ محمدؑ کا دور ہے، مہدی ِ آخر الزمان کا دور ہے، اس دور میں نتیجہ انقلابی قوتوں کے ہاتھ میں ہے، جنہوں نے اپنے خون سے اس راستے کو نتیجہ خیز بنایا ہے اور اس راستے کا انتخاب کیا ہے۔
اسلام ٹائمز: دو ماہ میں داعش کے خاتمے کے اعلان کے بارے میں کیا کہیں گے۔؟
سید ناصر عباس شیرازی: جنرل قاسم سلیمانی نے اگر کہا ہے کہ دو ماہ بعد داعش کا وجود نہیں ہوگا تو یقینی طور پر نہیں ہوگا، جون 2014ء میں نوری مسجد سے خلافت کا اعلان کیا، اس وقت وہ عراق کے 60 سے 65 فی صد علاقے پر قابض ہوچکے تھے، نصف سے زیادہ عراق ان کے پاس تھا، جغرافیائی اعتبار سے، عراق کا دوسرا بڑا شہر موصل اور معدنی وسائل سارے ان کے پاس تھے، اسی نوری مسجد پر 2017ء میں اہلسنت اور اہل تشیع نے ملکر لبیک یاحسینؑ کا پرچم لہرایا ہے، جہاں داعش کے باضابطہ خاتمے کا اعلان کیا ہے، اس وقت شاید 2 فیصد علاقہ داعش کے قبضے میں ہے، یہ نوشتہ دیوار ہے کہ آئندہ چند دنوں میں باقی ماندہ علاقوں سے قبضہ اور خلافت کا نام نہاد نظام مکمل ختم ہو جائیگا، ہوسکتا تخریب کار سیل انکے موجود رہیں، عراق میں کہیں انکا قبضہ نہیں رہیگا، اس بات کو عقل اور حقائق دونوں تسلیم کرتے ہیں۔
اسلام ٹائمز: سید حسن نصرا للہ نے فرمایا ہے کہ ضرورت پڑی تو ٹرمپ کیخلاف جنگ کرینگے، شام میں دشمن کی شکست کے کیا اسباب ہیں؟ اسرائیل اور عرب ممالک مستقبل میں کیا سازش کرسکتے ہیں۔؟
سید ناصر عباس شیرازی: جو سید حسن نصر اللہ نے کہا ہے یہ بہت واضح ہے، ٹرمپ کے خلاف ہی جنگ ہو رہی ہے، ٹرمپ اسرائیل کا محافظ ہے، اسرائیل کو بچانے کیلئے فعال ہے، بھرپور طریقے سے اپنی پوری طاقت لگا رہا ہے، لیکن انہیں اس میں ناکامی ہو رہی ہے۔ یہ جنگ عظیم تر اسرائیل کی جنگ تھی، اسرائیل کو اسٹریٹیجک اسپورٹ دینے کی جنگ تھی، یہ اسرائیل کو تزویراتی گہرائی فراہم کرنے کی جنگ تھی، لیکن ساری جنگ میں اسرائیل ہار گیا ہے، انکی شکست لکھی جا چکی ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل کے خاتمے کے متعلق رہبر معظم نے جو کہا ہے اسکی ابتداء ہوچکی ہے، الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے، ریورس گیئر لگ چکا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کبھی جنگ لبنان کے اندر ہوا کرتی تھی، پھر بارڈر پہ ہونے لگی، اب انقلابی قوتوں نے اعلان کیا ہے کہ اب اگر کوئی جنگ ہوگی تو وہ اسرائیل کے اندر تل ابیب، حیفا اور مقبوضہ فلسطین کے اندر ہوگی۔ اس منطقے میں جس جس کو شکست ہوئی، چاہے وہ جبہۃ النصرہ ہو، تو بھی وہ اسرائیل کی شکست ہے، داعش اور القاعدہ کی شکست ہے تو بھی وہ اسرائیل کی شکست ہے۔ اسی طرح اگر انقلاب اسلامی ایک طاقت کے طور پر خطے میں موجود ہے تو یہ بھی اسرائیل کی شکست ہے، آئندہ کا سوریہ پہلے سے کئی گنا زیادہ طاقت کیساتھ انقلاب اسلامی اور مزاحمت کے بلاک کیساتھ کھڑا ہوگا، یہ وہی تسلسل ہے، جس کے بارے میں امام خمینی نے فرمایا تھا کہ قدس براستہ کربلا۔ یہی وہ رستہ ہے، یہ رستہ انقلابی طاقتوں کے ہاتھ میں ہے، انقلابی قوتوں کے ہاتھوں تشکیل پانے والا نیا مڈل ایسٹ پوری دنیا کو ری ڈیزائن کریگا، نہ صرف مشرق وسطٰی کو۔ اس کے اثرات خطے میں ظاہر ہونا شروع ہوچکے ہیں، جو نظر آ رہے ہیں۔
اسلام ٹائمز: لشکر طیبہ کیلئے کام کرنیوالی فلاح انسانیت فاونڈیشن کیخلاف ایکشن لیا گیا ہے، لیکن ملی مسلم لیگ سیاست میں فعال ہے، اس پر کیا تبصرہ کرینگے۔؟
سید ناصر عباس شیرازی: جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ ملی مسلم لیگ لشکر طیبہ ہی ہے، لشکر طیبہ پابندی لگنے کے بعد جماعۃ الدعوہ کے نام سے کام کرنے لگی، پہلے یہ سیاست کے قائل نہیں تھے، اب انہوں نے سیاست کا اعلان کر دیا، اب ملی مسلم لیگ کے نام سے رجسٹرڈ ہیں، اسی طرح فلاح انسانیت فاونڈیشن بھی انہی کا ادارہ ہے، اس پر کوئی پابندی نہیں ہے، پورے پاکستان میں فعال ہے، عملی طور پر کئی ناموں سے جماعۃ الدعوہ فعال ہے، حافظ سعید صاحب کو کئی طریقوں سے اسپورٹ کیا جاتا ہے، پروٹیکٹ کیا جا رہا ہے، ان پر کوئی ایسی پابندی نہیں ہے، اس وقت یہ موضوع پاکستان کی سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان متنازع صورت بھی اختیار کرچکا ہے۔ چین نے بھی کہا ہے کہ لشکر طیبہ پہ عملی طور پر پابندی ہونی چاہیے، بریکس کے اعلامیے میں بھی یہ بات آئی، اسی طرح اپنے گھر کی صفائی کی بات بھی اسی تناظر میں کی جا رہی ہے، ڈان لیک بھی اس سلسلہ کی کڑی تھی، یہ اس وقت BON OF CONTENTION ہے، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں تکفیری قوتوں کو برداشت نہیں کیا جانا چاہیے، عسکری صلاحیت رکھنے والے کسی گروہ کا وجود نہیں ہونا چاہیے، یہ رجحان بھی ختم ہونا چاہیے کہ فلاں گروہ اب ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا ہے، یا سول اسٹیبلشمنٹ کا، لشکر طیبہ ملٹری سے اور لشکر جھنگوی رانا ثناء اللہ سے حمایت لیتے ہیں، یہ سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے، کالعدم گروہوں اور جماعتوں کو کسی طرح کی حمایت نہیں ملنی چاہیے، ریاست کو پالیسی بدلنا چاہیے، ملک کو انسانوں کے رہنے کے قابل بنایا جائے۔
اسلام ٹائمز: داعش پہاڑوں سے نکل کر یونیورسٹیز میں قدم جما رہی ہے، مدارس کے بعد یونیورسٹیز میں بھی دہشتگردوں کے اڈے بن رہے ہیں، ریاست کو کیا کرنا چاہیے۔؟
سید ناصر عباس شیرازی: یہ درست ہے کہ داعش پہاڑوں سے نکل کر یونیورسٹیز میں اڈے بنا رہی ہے، پہلے بھی یونیورسٹیز میں موجود تھی، اصل میں داعشی تفکر مدارس میں موجود تھا، جہاں سے رسمی تعلیمی اداروں میں آیا، ایک NEXCUS ہے مدارس اور تعلیمی اداروں کے درمیان ان قوتوں کا۔ ضیاءالحق نے انہیں مختلف اداروں میں رسائی فراہم کی۔ اسوقت سے ان مدارس کے افراد اسٹیبلشمنٹ، بیوروکریسی میں آنا شروع ہوگئے، یونیورسٹیز میں ان لوگون نے ڈگریاں لینا شروع کر دیں، جس کے نتیجے میں انکا اثر و نفوذ بڑھا ہے، داعش فکری طور پر ان تمام جگہوں پر موجود ہے، لیکن ملٹری ٹریننگ اور مستقر انکے پہاڑوں میں ہیں، البتہ انکے مددگار، ہمدرد اور SLEEPING CELLS یہ پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں، اصل مسئلہ ہی یہی ہے کہ ان CELLS کو تو توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے، افراد کیخلاف کارروائی بھی ہوتی ہے، لیکن ان کی نظریاتی بنیادوں کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی، جب تک اس نظریئے اور اس نظریئے کے سرچشمے کو بند نہیں کیا جائیگا، اسوقت تک داعشی تفکر کو روکنا ممکن نہیں ہوگا۔