امیر المومنین علی علیہ السلام: نہ نفرتی دشمن اور نہ محبت کے دعویدار؛ بہترین افراد وہ ہیں جو راہ حق و اعتدال سے تجاوز نہیں کرتے۔ نہج البلاغہ، خطبہ/۱۲۷۔
امیرالمومنین علی علیہ السلام سے منقول ہےکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا:
مٰا خَلَقَ اللّه أفْضَلَ مِنِّي؛ وَ لا أَکرَمَ عَلَیهِ مِنّي ... ﷲ تعالیٰ نے مجھ سے افضل اور مجھ سے بہتر کسی کو خلق نہیں فرمایا۔
علی نے عرض کیا: اے ﷲ کے رسول! کیا آپ افضل ہیں یا جبرئیل؟
فرمایا: اے علی! ﷲ تبارک وتعالیٰ نے اپنے بھیجے ہوئے انبیاء کو اپنے مقرب فرشتوں پر فضیلت دی ہے اور مجھے تمام انبیاء ومرسلین پر فضیلت دی ہے۔ اے علی! میرے بعد تم اور تمہارے بعد والے ائمہ افضل ہیں۔ فرشتے تو ہمارے اور ہمارے دوستداروں کے خادم ہیں۔ اے علی! عرش کو اٹھانے والے فرشتے اور عرش کے اردگرد موجود فرشتے ﷲ کی حمد و تسبیح کرتے ہیں اور ہماری ولایت پر ایمان لانے والوں کےلئے استغفار کرتے رہتے ہیں۔ [ امام خمینی(رح): امامت اور انسان کامل، ص۶۴]
عالم بشریت کی اعلی و اجل ہستی مرسل اعظم، نبی الرحمہ حضرت محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ کے بعد سب سے پہلا نام امیرالمومنین علی ابن ابی طالب کا آتا ہے؛ لیکن آپ سے متعلق محبت و معرفت کی تاریخ میں بہت سے لوگ افراط و تفریط کا بھی شکار ہوئے ہیں اور ایک دنیا، آپ سے دوستی و دشمنی کی بنیاد پر مختلف جماعتوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔
" جلد ہی میرے متعلق، دو گروہ ہلاک ہوں گے: ایک وہ دوست جو افراط سے کام لیں گے اور ناحق باتیں میری طرف منسوب کریں گے اور دوسرے وہ دشمن جو تفریط سے کام لےکر کینہ و دشمنی میں آگے بڑھ جائیں گے اور باطل کی راہ اپنالیں گے؛ حال آنکہ، بہترین افراد وہ ہیں جو راہ حق و اعتدال سے تجاوز نہیں کرتے"۔ نہج البلاغہ، خطبہ/۱۲۷۔
عزیز مسلمانو! وہ سچے مسلمان جو اہلبیت رسول (ع) سے محبت کرتے ہیں اور ان کو اپنے کردار و اعمال کےلئے " اسوہ حسنہ " سمجھتے ہیں، صرف اس لئے ایسا نہیں کرتے کہ وہ ہمارے پیارے نبی (ص) کی اولاد ہیں، بلکہ اس لئے محبت و اطاعت کرتے ہیں کہ وہ خدا کی نگاہ میں محترم اور قابل قدر انسان ہیں اور ان کو اللہ نے اپنا نمائندہ اور عالم بشریت کا پیشوا اور ان کی اطاعت و پیروی کو واجب قرار دی ہے۔ ان کی سیرت سے سبق حاصل کرنا اور انکے آئینۂ کردار میں خود کو ڈھالنا، ہمارا فریضہ ہے؛ اس لئے کہ خدا و رسول خدا کی پیروی کے مترادف ہے۔
اسلام محمدی (ص) میں وہی محبت کارساز ہے جو معرفت کے ساتھ ہو؛ ورنہ محبت میں اگر کوئی علی (ع) کو الوہیت یا نبوت و رسالت کی منزل میں پہنچانے کی کوشش کرے تو یہ غلو اور شرک ہے جس کی طرف حدیث میں اشارہ ہےکہ:" ہلک فيّ رجلان، مبغض قال و محبّ غال " کینہ رکھنے والا دشمن اور جھوٹے محبت کے دعویدار، یہ دونوں گروہ ہلاکت میں ہیں۔
ایک مسلمان کی حیثیت سے جب ہم علی (ع) کی سیرت کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ خدا کی بندگی، رسول اسلام (ص) کی جانشینی اور مسلمانوں کی امامت کے لحاظ سے کامل ترین مسلم انسان نظر آتے ہیں۔ چنانچہ رمضان المبارک کی ۱۹ویں کو بوقت سحر، سنہ ۴۰ ھ،ق، جامع مسجد کوفہ میں، سجدۂ معبود میں پیشانی خون میں غلطاں ہوئی۔ جبرئیل امین (ع) نے ندا بلند کی:" تَہَدّمَت واللہ اَرکان الہُدیٰ " خدا کی قسم ارکان ہدایت منہدم ہوگئے۔
اور مسجد کوفہ میں جب سارے مسلمان اپنے امام کے غم میں نوحہ کناں تھے، خدا کا مخلص بندہ نے
اشتیاق وصال یار میں آواز دے رہا تھا: " فُزتُ وَ رَبّ الکَعبہ " رب کعبہ کی قسم، کامیاب ہوگیا میں۔
رمضان المبارک کی ۱۹ویں، ۱۲ویں اور ۲۳ویں شب، شبہائے قدر ہیں۔ ان راتوں میں مسلمان، شب بیداری اور اپنے معبود حقیقی سے راز و نیاز اور تلاوت قرآن پاک میں مصروف رہتے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران سمیت دیگر اسلامی ممالک کی مساجد اور امام بارگاہوں میں شب قدر کے اعمال انجام دیئے جاتے ہیں اور شب ضربت نیز شب شہادت مولی الموحدین علی علیہ السلام کی مناسبت سے نوحہ خوانی و سینہ زنی کرتے ہیں۔
اس مبارک مہینہ کی ۱۹ویں رات میں سحر کے وقت، ابن ملجم مرادی نے حضرت امام علی(ع) کے سر مبارک پر زہریلی تلوار سے ضرب اشقی الاشقیاء وارد کیا جبکہ آپ (ع) سجدے کی حالت میں تھے۔ ضربت کی وجہ سے مولا علی(ع) دو روز تک بستر علالت پر رہے اور ۲۱ویں ماہ مبارک رمضان کو شہید ہو گئے۔
التماس دعا