امام خمینی: بادشاہت، ایک بوسیدہ اور غیر معقول نظام ہے جبکہ ہماری قوم، مسلمان ہے، دین اسلام سے وابستہ ہے جس نے عدل الہی کا مشاہدہ کیا ہے؛ اس قوم کی ایک ایک فرد " اسلامی جمہوریہ" کی خواہاں ہے۔
صدر اسلام سے آج تک کتنی معصوم جانیں قربان ہوگئیں۔
معاویہ، ان افراد میں سے ہے جو بظاہر مسلمان ہونے کا مدعی ہے، اسی لئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی جانشینی کی بات کرتا ہے اور با جماعت نماز پڑھتے ہوئے ظاہری طور پر تمام اسلامی اصولوں کی رعایت کرتا ہوا نظر آتا ہے جبکہ اس کے برخلاف، یزید بن معاویہ اعلانیہ طور پر اسلامی احکام کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
آخر وہ کونسی بات تھی جس کی وجہ سے معاویہ کے خلاف حضرت علی علیہ السلام کو اقدام کرتے ہوئے جنگ لڑنی پڑی؟ اس کا جواب یہ ہےکہ معاویہ ایک ظالم اور جابر شخص تھا جس نے لوگوں کو ہر طرح سے استحصال کیا تھا، لوگوں کو حکومت اسلامی کے خلاف ظلم و تعدی پر مجبور کیا تھا اور بیت المال پر اپنا قبضہ جمایا تھا۔
امام حسین علیہ السلام اس ضمن میں واضح طور پر بیان فرماتے ہیں کہ جو کسی ظالم حکمراں کو حکومت کرتے ہوئے دیکھے تو اس کے خلاف قیام کریں اور جس قدر ممکن ہے اسے ظلم سے باز رکھنے کی کوشش کریں تاکہ امت کی اصلاح ہوسکے؛ اسی لئے اسلام کی راہ میں آپ نے اپنا اور اپنے عزیزوں کا مقدس لہو پیش کیا۔
آزادی اور استقلال کے حصول کےلئے فداکاری کی ضرورت ہوتی ہے، اگر ہم پوری قوم کو مستقل بنانا چاہتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ اپنے آپ کو امریکہ، انگلینڈ اور روس کے تسلط سے آزاد کریں تو ایثار و فدا کاری کی ضرورت ہے۔
جب کوئی کام اللہ کےلئے اور ظلم کے خلاف ہو تو ہمیں اس پر عمل کرتے ہوئے کوئی دکھ نہیں ہونا چاہئے، اگر ہمیں اس راہ میں مارا جائے تو حق کے راستے میں ہماری موت واقع ہوئی ہے جو اپنی جگہ کامیابی ہے اور اگر فتح یاب ہوکر دشمن کو قتل کردیں تو یہ بھی حق کے راستے میں کامیابی کہلاتی ہے۔
امام علی علیه السّلام کی عدل پر مبنی حکومت کی ایک جھلک
امام خمینی: ایک یہودی شخص نے آپ کی جانب سے مقرر کردہ قاضی کے پاس جاکر یہ دعویٰ پیش کر دیا کہ آپ کے پاس جو زرہ ہے وہ ان کی ہے۔ قاضی نے آپ کو عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دیا، قاضی کے حکم پر جیسے ہی آپ عدالت میں حاضر ہوئے تو قاضی نے یہودی کو نظر انداز کرتے ہوئے آپ کا احترام کیا، قاضی کے اس رویہ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: ہم دونوں میں کوئی فرق نہیں۔
کیا تم لوگ یہ گمان کرتے ہو کہ اسلامی حکومت، فقط یہی ہے جو حجاز میں قائم ہے! حجاز کی حکومت کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، یہ لوگ ایسے ڈکٹیٹر ہیں جو بظاہر اسلام کے دعویدار ہیں لیکن حقیقت میں اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔
امام علی علیه السّلام کی زندگی کا ایک گوشہ
امام خمینی: امام علی علیہ السلام کی خلافت کا دائرہ بہت وسیع اور عریض ہونے کے باوجود ہمیں آپ کی سیرت میں ملتا ہےکہ آپ کے ہاں رات کو بچھانے کےلئے بھیڑ کی ایک کھال تھی کہ اس میں آپ آرام فرماتے تھے اور کبھی آپ نے پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا؛ انیسویں رمضان المبارک کی رات، آپ اپنی بیٹی ام كلثوم علیھا السلام کے ہاں مہمان تھے، ام کلثوم (س) ایک گلاس دودھ اور تھوڑا سا نمک لے کر آئیں تاکہ آپ (ع) اس سے افطار فرما لیں؛ آپ نے دسترخوان پر نظر ڈالی اور فرمایا: میری بیٹی، آپ نے مجھے دو کھانے کھاتے ہوئے کب دیکھا ہے؟ آپ نے حکم دیا کہ ان دونوں کھانوں میں سے ایک کو اٹھا لو، اس کے بعد آپ نے جو کی تھوڑی سی روٹی، نمک کے ساتھ تناول فرمائی۔
حقیقت میں حکومت اور اسلام کے حکمران ایسے ہی ہوتے ہیں۔
امام علی علیه السّلام کی عدل و انصاف پر مبنی حکومت کی آرزو
امام خمینی: بادشاہت، ایک بوسیدہ اور غیر معقول نظام ہے جبکہ ہماری قوم، مسلمان ہے، دین اسلام سے وابستہ ہے جس نے عدل الہی کا مشاہدہ کیا ہے؛ اس قوم کی ایک ایک فرد " اسلامی جمہوریہ" کی خواہاں ہے۔
حضرت علی علیہ السلام نے ۔ جو اپنے دور حکومت میں عربستان، مصر، ایران، عراق، شام اور دوسری جگہوں پر محیط عظیم حکومت کے حاکم ہیں ۔ یہودی کے پہلو میں بیٹھ کر اپنے مقرر کردہ قاضی کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کیا ہے اور ہمیں ایسی حکومت کی آرزو ہے جو عدل و انصاف پر مبنی ہونے کے ساتھ اپنی رعایا سے محبت کرتی ہو، ہم ایسی حکومت کی داغ بیل ڈالنا چاہتے ہیں۔
حضرت علی علیه السّلام کی حکومت کا طرزِ عمل
امام خمینی: اگر فرض کریں کہ حضرت علی علیه السّلام جیسا کسی شخص کو لوگ کسی ملک میں حکمرانی کرتے ہوئے دیکھیں اور ان کے طرز عمل کا مشاہدہ کریں، مثال کے طور پر ان کا دوسروں کے ساتھ برتاو کیسا ہے؟ ان کی اولاد اور اصحاب کی زندگی کا کیا طریقہ ہے؟ اور سطح زندگی کے اعتبار سے ان کی مملکت کے حکمراں اس سے کمتر ہے تو یقینا لوگ ان پر اعتماد کرتے اور اس کا ساتھ دیتے؛ لیکن ہم ایسی مخلوق کا ہرگز سراغ نہیں لگا سکتے؛ جیسا کہ خود امیرالمومنین علیہ السلام نے بھی فرمایا:
تم اس بات کی طاقت نہیں رکھتے لیکن تقوی اور پرہیزگاری کے ذریعے میری مدد کرو۔ ہماری جانب سے " جمهوری اسلامی " جیسے نعرے کا مقصد بھی یہ ہےکہ ہمارے مد نظر علوی حکومت ہے۔
منابع اور اقتباس:
روزنامہ جمہوری اسلامی
۱/۔ صحیفہ امام، ج۴، ص۱۵۱۔
۲/۔ صحیفہ امام، ج۴، ص۱۹۸۔
۳/۔ صحیفہ امام، ج۴، ص۲۲۱۔
۴/۔ صحیفہ امام، ج۶، ص۵۷۔