امام علیہ السلام کو جب ضربت کا احساس ہوا، فرمانے لگے: بسم اللّہ و باللّہ و علی ملۃ رسول اللّہ، فزت برب الکعبہ۔
امیرالمومنین علی علیہ السلام کی خصوصیات میں سے ایک منفرد خصوصیت، جو نہ اس سے پہلے کسی کو یہ شرف نصیب ہوا اور نہ اس کا بعد ہوگا، آپ کی خانہ کعبہ کے اندر ولادت ہے۔ یہ کرامت اور معجزہ الہی ہے جو ذات احدیت نے دنیا کو دکھایا وہ بھی دروازے سے نہیں بلکہ خانہ کعبہ کی دیوار کو شق کرکے آپ کی والدہ کو اندر بلایا اور عمل ولادت خانہ الہی کے اندر انجام پایا۔ یہ اس بات پر دلالت کرتی ہےکہ خدا کی خاص عنایات آپ کے اوپر تھی۔
خدا کی ایک سب سے بڑی موہبت اور نعمت جو آپ کو نصیب ہوئی وہ یہ تھی کہ علی علیہ السلام ابھی دس سال کے بھی نہیں ہوئے تھے کہ آپ کی تربیت اور تزکیہ کا وظیفہ پیغمبر اکرم نے اٹھایا۔ رسول اعظم نے اپنے خلق خو اور اپنی بزرگواری اور بڑھائی کے ذریعے آپ کی تربیت شروع کی اور کسی بھی حالت میں رسول خدا، آپ کو اپنے سے جدا نہیں کرتے تھے۔
(شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید؛ ج١ ص١٤)
برہان الدین حلبی شافعی حضرت سلمان فارسی سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اعظم نے فرمایا: میری امت میں سب سے پہلے وہ شخص حوض (کوثر) پر آئےگا جس نے سب سے پہلے ایمان لایا ہو؛ یعنی علی[ع]؛ اور حضور نے ایک بات اس وقت کہی جب حضرت علی علیہ السلام کی شادی حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا سے ہوچکی تھی؛ پیغمبر نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا سے فرمایا: تمہارا شوہر دنیا و آخرت میں تمام لوگوں کا سردار ہے کیوںکہ وہ اصحاب میں سے پہلا فرد ہے جو مجھ پر ایمان لائے۔
(السیرۃ الحلبیہ، ج١، ص٢٦٨)
مولا علی علیہ السلام جس دن سے پیغمبر اکرم کی زیر سرپرستی میں گئے اسی دن کے بعد سے لےکر شہادت کی رات تک کسی بھی وقت اور کسی بھی لمحہ دفاع از رسالت اور دین الہی سے پیچھے نہیں ہٹے۔
تاریخ میں ملتا ہےکہ پیغمبر اکرم بہت جگہ تصدیق بلکہ عملاً مولا علی کی ولایت اور جانشینی کا اعلان فرماتے رہے۔ ہجرت سے لےکر غدیر تک تاریخ کے اوراق پیغمبر خدا کی حدیثوں سے بھری ہوئی ہیں جن میں آپ کی ولایت کا اعلان اور آپ سے محبت کی قدر و منزلت اور آپ کے دفاع اور پیروی کا حکم ملتا رہا؛ مگر تاریخ اسلام کا سب سے تاریخی واقعہ ١٨ ذی الحجہ دس ہجری کے دن غدیر کے میدان میں رونما ہوا۔
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام رمضان المبارک میں شہید ہوئے۔ آپ کو اپنی شہادت کے بارے میں پہلے سے علم تھا اور ہمیشہ خدا سے طالب شہادت تھے؛ منقول ہےکہ آپ فرماتے تھے: مجھے عار ہے کہ بستر پر نیند کی حالت میں موت آئے۔ البتہ آپ کو رسول خدا نے پہلے ہی شہادت سے مطلع فرمایا تھا۔
ایک روایت ہےکہ اللہ کے رسول نے فرمایا: یاعلی میرے بعد تیس سال زندگی کروگے، ان سالوں میں تم پر جو ظلم و ستم ہو ان پہ صبر کرنا اور آخر میں شہید ہوجاؤگے اور تمہارا قاتل کا بھی حضرت صالح کی ناقہ کو قتل کرنے والوں کی ردیف میں اور دشمنان خدا میں شمار ہوگا۔
علی [ع] نے سوال کیا: یا رسول اللہ جب میں شہید کیا جاؤں گا تو آیا میرا دین سالم ہوگا؟
فرمایا: جی ہاں تمہارا دین سالم ہوگا۔
حضرت علی علیہ السلام کی اس مختصر خلافت میں تین جنگیں ہوئیں، جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان اور یہ تینوں جنگیں پانچ سال کے اندر پیش آئیں اور ان جنگوں میں ہزاروں لوگ مارے گئے۔
حضرت علی علیہ السلام کی منزلت اور حقانیت سے سب آشنائی رکھتے تھے مگر جہالت اور ایمان و عقائد کی کمزوری کی وجہ سے اور اسلامی معاشرے میں آپس میں ہونے والی جنگوں کی وجہ سے لوگوں کی نظر میں آپ کی انجام دی ہوئی جنگیں بھی قدرت کے حصول اور حاکمیت کی خاطر ہونے والی جنگیں حساب کرنے لگے اور اسی وجہ سے خوارج کا گروہ تشکیل پایا۔
شہید مطہری فرماتے ہیں: خوارج یعنی طغیان کرنے والے افراد؛ یہ کلمہ خروج سے یعنی سرکشی اور طغیان کے معنی میں آتا ہے۔ یہ گروہ جنگ صفین میں تشکیل پایا اور اس گروہ کے بننے میں معاویہ کا بہت بڑا ہاتھ ہے؛ معاویہ نے عمرو عاص کی مشورت سے ایک بڑی اور ماہرانہ چال چلی؛ حکم دیا کہ قرآنوں کو اپنے نیزوں پر اٹھاؤ جس کی وجہ سے کچھ لوگ جو نادان اور مقدس نما تھے جو کہ تعداد میں بہت زیادہ تھے، معاویہ کی اس چال کے چکر میں آگئے اور جب مولا نے حکم دیا کہ جنگ کو ادامہ دو تو یہ لوگ ایک دوسرے کو اشارہ کرکے کہتے ہیں: علی کیا کہہ رہا ہے، ہم قرآن کے ساتھ لڑیں!!
یہ گروہ شروع میں تو ایک باغی اور سرکش فرقہ تھا مگر آہستہ آہستہ اپنے لئے خاص عقائد اور اصول وضع کرنے لگے اور ان کے ذہنوں میں یہ بات پرورش پائی کہ اسلام کے اندر ہونے والے مفاسد کو جڑ سے ختم کردیں؛ عثمان، علی اور معاویہ سب سے زیادہ خطا کار اور گناہ گار ہیں۔ شروع میں تو عثمان و علی کی خلافت کے قائل تھے مگر وہ کہتے تھے کہ عثمان اپنی خلافت کے چھٹے سال سے صحیح راستہ سے ہٹ کر مصالح مسلمین کے ضرر والے راستہ پر گیا ہے لہذا واجب القتل ہے اور علی نے حکمیت کو قبول کیا ہے اور توبہ نہیں کی لہذا (العیاذباللہ) واجب القتل ہے۔
(جاذبہ و دافعہ علی علیہ السلام؛ ص١١٤لی ١٣٠)
جب خوارج نے اپنے استدلال کے ذریعے اس بات کو یقینی کرلیا کہ ان لوگوں کو قتل ہونا چاہئے تو مکہ میں نہروان کی جنگ میں مارے جانے والوں کےلئے دعائے مغفرت کی اور سب مل کر کہا: اگر ہم اپنے خدا کے ساتھ معاملہ کریں اور اپنی جان کو اس کی راہ میں فدا کرنا چاہیں تو ہم پر لازم ہے سب سے پہلے مسلمانوں کے حکام کی طرف جائیں اور ان کو قتل کردیں تاکہ لوگ ان کے ہاتھوں سے چھٹکارا حاصل کریں۔
عبد الرحمن بن ملجم مرادی نے کہا: علی کو قتل کرنے کی ذمہ داری میری ہے؛ اور اس کام کےلئے ١٩ رمضان کی رات معین کی گئی۔
(شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید؛ ج٦ ص١١٣)
ابو مخنف کہتے ہیں: ۱۹ رمضان المبارک، امام مسجد کی طرف روانہ ہوئے؛ مسجد کے اندر نماز پڑھی اور اذان کہنے کی جگہ پر تشریف لے گئے اذان دی۔ اس کے بعد محراب میں تشریف لائے اور نماز شروع فرمائی۔ رکعت اول، سجدہ اول سے سر کو اٹھایا اسی وقت ابن ملجم مرادی لعنۃ اللہ علیہ نے ضربہ شمشیر کو آپ کے سر مبارک پر لگایا اور تلوار اسی جگہ لگی جہاں جنگ خندق میں عمرو بن عبدود عامری نے ضربہ لگایا تھا؛ امام علیہ السلام کو جب ضربت کا احساس ہوا، فرمانے لگے: بسم اللّہ و باللّہ و علی ملۃ رسول اللّہ، فزت برب الکعبہ۔
لوگ آپ کے گرد جمع ہونے لگے اور فریاد بلند کرنے لگے مگر امام آیہ شریفہ: منہا خلقناکم و فیہا نعیدکم و منہا نخرجکم تارۃً اخریٰ (سورہ طہٰ/ آیت:٥٥) کی تلاوت فرمانے لگے اسی وقت ملائکہ کے اندر ایک ہل چل مچی اور جبرئیل امین نے آواز دی :
تہدّمت واللہ ارکان الہدیٰ ... خدا کی قسم آج ہدایت کے ارکان گر گئے؛ آسمان کے ستاروں میں سیاہی چھا گئی؛ تقوی کی نشانیاں ختم ہوگئی اور ہدایت کی مضبوط رسی آج ٹوٹ گئی؛ رسول اللہ کا چچا زاد بھائی مارا گیا؛ علی مرتضی آج مارے گئے؛ سید اوصیاء کو شقی ترین نے مار دیا۔
التماس دعا