اسلام کے مستقبل کی امید

اسلام کے مستقبل کی امید

جب کبھی بیٹوں کی شہادت کی خبر کسی باپ کو ملتی ہے تو اس بوڑھے باپ کی حالت کیا ہوجاتی ہے؟

جس زمانے امام (رح) کو نجف کی طرف جلاوطن کیا گیا تھا، اس وقت کچھ درباری ملاؤں کو شاہ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا کہ وہ امام (رح) کے دوستوں کو امام (رح) سے دور کریں اور حوزہ علمیہ نجف اشرف میں امام (رح) کے ساتھ ایسا برتاؤ کریں کہ اس کا فائده شاہ ایران اور شہنشاہی نظام کو پہنچے۔ یہ بات سبب بنی کہ اس زمانے امام (رح) اور کچھ دیگر علماء کے مابین بعض نظریاتی اختلافات بھی پیدا ہوئے کہ جس کے نتیجہ میں کچھ افراد کے مابیں توتومیں میں بھی ہوئی۔

ایسے حالات میں آپ کے فرزند حاج مصطفی آپ کے ساتھ ایک مضبوط بازو کی مانند تھے جو ہر حال میں آپ کو دشمن کے مختلف حملوں سے نجات دلوایا کرتے تھے۔ حاج مصطفی نے علمی حلقوں میں اپنا لوہا منوا رکھا تھا۔ جس کے سبب آپ حوزہ علمیہ نجف کی فضا میں پروان چڑہنے والی ہر طرح کی سازش کو اپنی علمی طاقت سے ناکام بنادیا کرتے تھے اور دشمن کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملاکر انہیں اپنے عزائم میں کامیابی کے لئے مایوس کر دیا کرتے تھے۔ یہ بات ہم نے مقدمتاً اس لئے بیان کی کہ ہمارے قاری کو اس بات کا علم ہوجائے کہ امام (رح) کی اولاد بھی کوئی معمولی فرزند نہیں تھے۔ لہذا جب کبھی سید مصطفی جیسے بیٹوں کی شہادت کی خبر کسی باپ کو ملتی ہے تو اس وقت اس بوڑھے باپ کی حالت کیا ہوجاتی ہے؟ ( یہ بات تقریباً ہمیں معلوم ہے)

لیکن امام (رح) کا اس خبر کو سننے کے بعد رویہ عام علماء کی نسبت اس قدر منفرد تھا کہ کہا جا سکتا ہے کہ اس طرح کا رد عمل کوئی خدائی اور الہی انسان ہی پیش کر سکتا ہے ورنہ کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں.... کسی نے بھی اس غم انگیز سانحہ پر امام (رح) کو روتے نہیں دیکھا نہ گھر کے اندر اور نہ ہی گھر سے باہر یہاں تک کہ اپنے شاگردوں کے سامنے بھی آپ نے کوئی اس طرح کی بات ظاہر نہ کی کہ جس سے اندازہ ہو کہ امام (رح) کو اس واقعہ نے مغموم کیا ہے۔

صرف ایک بات جو امام (رح) نے اپنے فرزند کے بارے میں کہی اور وہ ہمیشہ کے لئے تاریخ میں نقش ہوگئی، وہ یہ کہ آپ نے فرمایا:

" مصطفی، اسلام کے مستقبل کی امید تھا"

آپ کا یہ جملہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ آپ ہر بات کو اسلام کے پیمانے پر تولتے تھے اور آپ کا اوڑھنا بچھونا سب کا سب اسلام ہی تھا اس لئے بیٹے سے بھی اگر ہمدردی کا اظہار کرتے، تو وہ بھی اسلام کی خاطر کہ اگر مصطفی زندہ رہ جاتے تو اسلام کو ان کے وجود سے فائده پہنچتا۔ لہذا آپ نے اس وقت اپنی ملکوتی اور عرفانی دنیا میں رہتے ہوئے فقط تین مرتبہ یہ کہا:

"انا للہ و انا الیہ راجعون"

ای میل کریں