امام خمینی(ره) کی کتابیں

امام خمینی(ره) کی کتابوں میں دین و سیاست کے باہمی ربط کے نظرئیے کے احیاء پر ایک نظر

آج کی ترقی یافتہ اور پیچیدہ دنیا میں دین پر یہ الزام نہ لگا یا جا سکے کہ وہ معاشرتی امور کا انتظام چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے

عصر حاضر میں  عظیم قائد حضرت امام خمینی(ره) کی قیادت میں  انقلاب اسلامی کی کامیابی کے ساتھ ہی صاحب العصر (عج) کے نائب عام اور ولی امر کی سربراہی میں  ایک دینی حکومت کا قیام عمل میں  آیا جو انشاء اللہ آپ(عج)  کے عالمی انقلاب تک قائم رہے گی۔ یہ حکومت متعدد صدیوں  کے بعد ہونے والا پہلا تجربہ ہے اور یہ حکومت اسلام کے پیش نظر عظیم مقاصد کے حصول اور عدالت و انصاف کے نفاذ کی کوششوں  میں  مگن ہے۔  اس اولین تجربے کی قدر دانی کرنی چاہئے اور اس کے استحکام کے لئے زیادہ سے زیادہ کوشش  کی جانی چاہئے۔ دانشوروں  اور علمائے دین کو چاہئے کہ زمان و مکان کے تقاضوں  کو مدنظر رکھتے ہوئے عقلی اور دینی ماخذوں  سے ہمہ گیر استنباط کی جانب مائل ہوں  اور تمام علوم کو مدنظر رکھتے ہوئے جدید مسائل کا حل پیش کریں  تاکہ جیسا کہ حضرت امام خمینی(ره) نے بھی انتباہ دیا ہے آج کی ترقی یافتہ اور پیچیدہ دنیا میں  دین پر یہ الزام نہ لگا یا جا سکے کہ وہ معاشرتی امور کا انتظام چلانے کی صلاحیت نہیں  رکھتا ہے۔ حضرت امام خمینی(ره) کی سیاسی الٰہی وصیت، آپ کے پیغامات اور تقاریر خوش قسمتی سے ان سب تک ہمیں  رسائی حاصل ہے، نیز حقیقی معنوں  میں  آپ کے راستے پر گامزن قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے ارشادات کی جانب توجہ ضروری ہے۔ اس اعتبار سے یہ دونوں  شخصیات ولی امر ہیں  اور دونوں  نے دینی تعلیمی مراکز ، علمائے دین اور اسلامی معاشرے کو گائیڈ لائن دی ہے۔

واضح سی بات ہے کہ اس کے معنی انسانی علم و ثقافت کی نفی کرنے کے نہیں  ہیں ، کیونکہ انسانی علم و ثقافت ایک مربوط مجموعہ ہے۔ علوم اور ثقاتوں  کے ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے سے بھی انکار ہیں  کیا جاسکتا ہے۔ دین نے حصول علم کے لئے بار بار حکم دیا۔ مثلاً یہ کہ علم حاصل کرو چاہے تمہیں  چین ہی کیوں  نہ جانا پڑے اور یہ کہ حکمت حاصل کرو چاہے منافق سے ہی کیوں  نہ حاصل کرنی پڑےاور ایسے ہی دوسرے بہت سے احکام اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ علم کسی خاص جگہ کے ساتھ خاص نہیں  ہے۔ جہاں  بھی آپ جائیں  وہاں  ہی علم ہے۔ زیادہ اہمیت کی حامل بات یہ ہے کہ دین اور دینی متون کی جانب توجہ دی جائے۔ دیگر علوم اور ثقافتوں  کو بھی دینی تعلیمات کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کے بارے میں  کوئی فیصلہ کیا جانا چاہے نہ تو ان کو مکمل طور پر قبول کرنا چاہے اور نہ ہی مکمل طور پر مسترد کر دینا چاہئے بلکہ انسانی عقل و خرد کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی جانچ پرکھ کی جائے ان کے مثبت اور منفی پہلووں  کو الگ الگ کیا جائے اور ان کے ساتھ ایک شائستہ اور ان کے شایان شان رویہ اختیار کیا جائے۔ دین اور علم و سائنس  ایک دوسرے کے ساتھی ہیں  اور ان کو ایک دسرے سے الگ کر دینے سے دونوں  کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔  انسان کو دنوں  کی ضرورت ہے۔ ادیان کا مخاطب انسان ہے اور علم و سائنس کی ترقی بھی انسانی دنیا میں  ہی ہوتی ہے اور یہ دونوں  مطلوبہ سعادت تک پہنچنے کے سلسلے میں  انسان کے ممد و معاون ثبات ہوتے ہیں ۔ عصر حاضر کے عظیم مصلح امام خمینی(ره) نے اسلام کی بی کسی اور اس کے احیاء کی بات کی ۔

  آپ فرمایا کرتے تھے ’’اسلام بے کس ہے، شروع سے ہی بیکس رہا ہے،  اب بھی بے کس ہے، کیونکہ بے کس وہ ہوتا ہے جس کی جانب کسی کی توجہ نہ ہو۔ کسی معاشرے میں  موجود ہو لیکن کوئی اس کی جانب متوجہ نہ ہو‘‘۔(صحیفہ امام، ج۱، ص ۴۰۰)

’’ہمیں  جہالت اور خرافات کے حصار کو توڑنے اور خالص محمدی (ص) اسلام کے گوارا سرچشمے تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہئے اور آج دنیا میں  اسلام ہی سب سے زیادہ بے کس ہے‘‘۔(صحیفہ نور، ج۲۰، ص ۴۱)

ای میل کریں