میدان علم، تقویٰ اور جہاد کی عظیم شخصیات میں امام خمینی (ره) کا مرتبہ سب سے بلند ہے۔ جس کام کو پروردگار عالم نے آپ کے ذریعہ پایۂ تکمیل تک پہنچایا دوسروں کے ہاتھوں عمل کی منزل تک نہیں پہنچ سکا اور اس بابت جو توفیق الٰہی آپ کو حاصل ہوئی دوسروں کو حاصل نہ ہوسکی۔
آپ نے کم نظیر وبے مثال شجاعت وبہادری کے ساتھ دو بنیادی اور بہت ہی عظیم اقدامات کئے جو کافی حد تک ثمر بخش ثابت ہوئے۔ پہلا اقدام آپ نے یہ کیا کہ دین اور اس کے مفاہیم کی شکل سے خرافات وکج فہمی کے اس غبار کو صاف کرنے کیلئے قیام کیا جو عالمی سامراج اور اس کی شیطانی سیاست اور بغیر اجرت کے سامراج کا راستہ صاف کرنے والے اس کے مقدس نما احمق مزدوروں نے دین پر ڈال دیا تھا اور یہ کام آپ کی با برکت عمر کے آخری ایام تک جاری رہا حتی آپ نے ایک مقام پر فرمایا: ’’اگر حکم خدا کو نشر وبیان کرنے کی وجہ سے ان خشک مقدسوں کے نزدیک ہماری حیثیت گھٹتی ہے تو گھٹنے دو۔۔۔ ‘‘(صحیفہ امام، ج ۲۱، ص ۳۵)
اور دوسرا اقدام اسلامی حکومت وجود میں لانے کیلئے آپ کا اٹھ کھڑا ہونا تھا حتی بعض صاحب الرائے افراد کے خیال میں امام خمینی (ره) نے جس درجہ پہلے اقدام کے متعلق شجاعت کا مظاہرہ کیا دوسرے اقدام کے سلسلے میں آپ کی شجاعت اس سے کہیں زیادہ تھی۔ اس امر کا زیادہ مشکل ہونا آپ کی گفتگو میں صاف نظر آتا ہے۔
’’انتظار ظہور‘‘ جو حضرت امام مہدی (عج) پر ایمان رکھنے والوں کیلئے زمانہ غیبت میں ایک زیادہ اصلاح کرنے اور شوق واشتیاق پیدا کرنے والا فریضہ ہے غم ناک انجام سے دوچار رہا ہے۔ افسوس کہ اس کے مفہوم میں تحریف اس طرح کارگر ہوگئی تھی کہ اس کو خود اس کے مخالف کے مفہوم میں تبدیل کردیا تھا اور ایسے سبب کی شکل میں پیش کیا کہ جو کاہل وناکارہ، آرام پسند اور موقع پرستوں کا ہتھکنڈہ بن گیا جس کے نتیجے میں امت مسلمہ پر جو نہیں گزرنا چاہئے تھا گزر گیا اور جو نہیں ہونا چاہئے تھا ہوا۔ خود امام خمینی (ره) اس کے متعلق فرماتے ہیں :
’’بعض لوگ ’’انتظار ظہور‘‘ کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ مسجد، امام بارگاہوں اور اپنے گھروں میں بیٹھے رہیں اور امام زمانہ (عج) کے ظہور کیلئے خداوند عالم سے دعا کریں یہ صالح افراد ہیں کہ ایسا عقیدہ رکھتے ہیں بلکہ ان میں ایک کو تو جسے میں پہلے سے پہچانتا ہوں بہت ہی صالح شخص تھا، نے ایک گھوڑا اور ایک تلوار بھی خریدی تھی اور امام زمانہ (ع) کے ظہور کا منتظر تھا یہ لوگ اپنے شرعی فرائض پر بھی عمل کرتے تھے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے تھے اور دوسرا گروہ ان افراد کا تھا جو کہتے تھے ’’انتظار ظہور‘‘ یہ ہے کہ دنیا میں ہماری ملت پر کیا گذر رہی ہے اس سے ہمیں کوئی واسطہ نہیں ہونا چاہئے۔ ہمیں اپنے فریضہ پر عمل کرنا چاہئے اور اس طرح کے امور سے روکنے کیلئے انشاء اﷲ خود امام زمانہ (ع) آئیں گے اور اصلاح کریں گے ہمارا فریضہ یہی ہے کہ ہم آپ کے آنے کی دعا کریں یہ بھی صالح افراد تھے لیکن ایک گروہ یہ کہتا تھا کہ دنیا کو گناہوں سے پر ہوجانا چاہئے تاکہ آپ ظہور کریں ! ہمیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ کرنا چاہئے تاکہ گناہ زیادہ ہو اور ظہور نزدیک ہوجائے ایک گروہ اس سے ایک قدم اور آگے تھا وہ کہتا تھا گناہوں کو اور رواج دینا چاہئے اور لوگوں کو گناہ کی طرف دعوت دینی چاہئے تاکہ دنیا ظلم وجور سے پر ہوجائے۔ البتہ اس قسم کے افراد احمق تھے کچھ گمراہ بھی تھے جو اپنے مطلب کے حصول کیلئے اس کو رواج دیتے تھے‘‘۔(کوثر، ج ۲، ص ۸۶۴)