انبیاء اور سیاست

انبیائے کرام (ع)، ائمہ و اولیاء اللہ (ع)کی سیاست میں مداخلت

ہر پیغمبر (ع) نے سب سے پہلے طاغوتوں اور ظالموں کے خلاف تحریک چلائی ہے

حضرت امام خمینی(ره)  اپنی تقریروں ، بیانات اور اعلامیوں  میں  انبیائے کرام ؑ، ائمہ و اولیاء اللہ ؑ کی سیاست میں  مداخلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کی ضرورت پر زور دیتے تھے۔ چند نمونے ملاحظہ ہوں :

’’۔۔۔ یہ مسئلہ یعنی سیاسی امور میں مداخلت ان اعلیٰ مقاصد میں شامل ہے جن کے لئے انبیاء مبعوث ہوئے تھے۔ عدل وانصاف کا قیام، کیا لوگوں کے لئے عدل و انصاف فراہم کرنا سیاسی امور میں مداخلت کے بغیر ممکن ہے ؟ کیا سیاست میں  مداخلت کے بغیر معاشرتی امور میں  دخل اندازی کے بغیر اور اقوام ملل کی ضرورتوں  کو پوا رکرنے کے لئے آگے بڑھے بغیر عدل وانصاف قائم ہوسکتا اور {لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ} کا مصداق حاصل ہو سکتا ہے؟‘‘(صحیفہ امام، ج۱۵، ص۱۴۶و ۱۴۷)

اس مطلب کو بیان کرنے کے بعد آگے چل کر امام خمینی(ره)  پیغمبروں  کی سیرت و روش بیان کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں  کہ ہر پیغمبر ؑ  نے سب سے پہلے طاغوتوں  اور ظالموں  کے خلاف تحریک چلائی ہے،  چنانچہ حضرت موسیٰ  فرعون سے مقابلے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے، حضور اکرم ؐ  نے مکہ کے استعماری طاقتوں  سے مقابلہ کیا اور اگر پیغمبر اکرم ؐ  صرف مسائل دین بیان فرماتے رہتے اور اگر دین صرف عبادی مسائل میں  منحصر ہوتا تو مکہ کی جابر قوتیں، رسول اللہ ؐ  سے تعارض نہ کرتیں  اور نہ ہی فرعون موسیٰ  سے الجھتا اور نہ ہی نمرود ابراہیم ؑ اور یزید اور امام حسین ؑ کے درمیان مقابلہ ہوتا۔۔۔

امام خمینی(ره)  نے ایک اور مقام پر فرمایا ہے: ’’رسول اللہ ؐ  نے دیانت کی بنیاد سیاست کے ڈھانچے پر کھڑی کی۔۔۔ صدر اسلام کی سیاست ایک عالمی سیاست تھی۔ رسول اللہ ؐ دنیا کے اطراف و اکناف کی طرف اپنے دستہائے مبارک کو برھاتے ہوئے ایک عالم کو اسلام اور اسلامی سیاست کی جانب دعوت دیتے رہے۔ انہوں  نے حکومت قائم کی اور خلفا نے بھی حکومت قائم کی۔ صدر اسلام میں  رسول اللہ ؐ  کے زمانے سے لے کر اس وقت تک جو انحراف پیدا نہیں  ہوا تھا سیاست اور دیانت کا چولی دامن کا ساتھ تھا۔۔۔‘‘۔ (صحیفہ امام، ج۱۷، ص۱۳۸ و ۱۳۹)

امام خمینی(ره)  کی نظر میں  یہ کہنا کہ انسان کو سیاست میں  دخل اندازی نہیں  کرنا چاہئے تاکہ اس کا تقدس بحال رہے، غلط اور دشمن کی ایک بڑی سازش تھا جس کے ذریعے وہ پوری تاریخ میں  معاشرے کی حقیقی قوتوں  اور سیاست و حکومت کے اصل مالکوں  کو بے دخل کر نے کے لئے کوششیں  بروئے کار لاتے رہے اور بعض مراحل پر وہ اس میں  کامیاب بھی رہے ہیں ۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے لوگ اس نکتے سے غافل رہے کہ حضرت پیغمبر اکرم ؐ اور حضرت علی ؑ  سیاستدان بھی تھے۔ کیاانہوں  نے حکومت قائم نہیں  کی؟ اور اطراف و اکناف میں  حکام سرکاری عہدیداروں  اور اپنے گورنروں  کو نہیں  بھیجا؟ اور کیا انہوں  نے الٰہی حدود و تعزیرات لاگو نہیں  کیں ؟ اور وہ مسلمانوں  کے مالی محصول جمع اور  خرچ نہیں  کرتے رہے؟ انبیاء اور ائمہ ان مسائل پر بھی توجہ مبذول کرتے تھے اور اپنی سیاسی ذمہ داریاں  نبھانے کے ساتھ ساتھ وہ تقدس ، تقویٰ و پرہیزگاری کی اعلیٰ و اکمل منازل پر بھی فائز تھے۔ امام خمینی(ره)  فرماتے ہیں :

’’جس نے اپنے روحانی پہلووں کو تقویت پہنچائی وہ طبیعی پہلووں میں بھی طاقتور بن جائے گا اس کے لئے انبیاء کی مثال دی جا سکتی ہے ۔ اولیاء اللہ تمام روحانی اقدار اور ان تمام الٰہی معارف کے ساتھ ساتھ ملک کا نظم ونسق بھی چلاتے تھے۔ وہ حکومت بھی قائم کرتے اور حدود بھی جاری کرتے تھے اور ان لوگوں کو موت کی گھاٹ اتارتے تھے جو معاشرے کے لئے مضر تھے۔ اس حالت میں کہ وہ معارف میں اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ (صحیفہ امام، ج۱۹، ص ۲۱۲)

’’۔۔۔ ہماری دلیل اور برہان یہ ہے کہ اگر ہم اس جدو جہد کو جاری رکھیں  اور ہم میں  سے ایک لاکھ افراد بھی مارے جائیں  تاکہ ان (دشمنوں ) کا ظلم و ستم ختم کریں  اور اسلامی مملکت سے ان کے ہاتھ کاٹ پھینکیں  تو یہ قابل قدر کام ہے اور اس راہ میں  سید و الشہداء  امام حسین ؑ  کا اقدام ہمارے لئے حجت ہے‘‘۔  (صحیفہ امام، ج۳، ص ۸)

بدیہی امر ہے کہ دشمنوں  کے خلاف جہاد اور جد و جہد کی راہ میں  جانی اور مالی نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں ۔ تاریخ کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ پیغمبروں  ؑ نے اس راہ میں  اپنی جان ، خاندان اور خویش و اقارب کو داؤ پر لگا کر ہر قسم کے مصائب و آلام جھیلے، پیغمبروں  ؑ، ائمہ ؑ اور اولیا اللہ کی سیرت کے عملی پہلووں  سے ہمیں ، ظالم و آمر اور جابر طاقتوں  کے خلاف جد  جہد کا درس ملتا ہے اور راہ میں ہمیشہ مستضعف و محروم اور ننگے بھوکے لوگ الٰہی رہنماؤں  کے ساتھ ہوتے ہیں  جبکہ امیر اور دولتمند افراد طاغوتی طاقتوں  سے تعلق رکھتے تھے اور وہ ان کے شانہ بشانہ مقابلہ کرتے ہوئے جان بہ جاں  آفریں  سپرد کرتے تھے۔ ائمہ ہدیٰ سب کے سب (سوائے امام زمانہ ؑ کے) شہید ہوئے ہیں  اور یہ ایسے حقائق ہیں  جو سیاست میں  دخل اندازی کے بغیر ان کا اجاگر ہونا ممکن نہیں  اور یہی سب سے بڑی دلیل بھی ہے۔

ای میل کریں