’’یونیورسٹی کسی قوم کی شقاوت و بدبختی کے مرکز کے مدمقابل سعادت کا مرکز ہوتی ہے، یونیورسٹی سے قوم کے مقدر کا فیصلہ ہونا چاہئے، یونیورسٹی ایک قوم کو بطریق احسن سعادتمند بنا سکتی ہے اور ایک غیر اسلامی بری یونیورسٹی، ایک قوم کو پیچھے دھکیل سکتی ہے۔ سابقہ شاہی حکومت کے دور کے تمام جرائم میں شاید یہ جرم کہ یونیورسٹی کو صحیح طریقے سے کام کرنے نہیں دیا گیا، ہر قسم کے جرائم سے بڑھ کر تھا۔ اسلام میں مال جائیداد اور مادیات کو نہیں معنوی اور روحانی اقدار کو اہمیت حاصل ہے جو یونیورسٹی سے دوسرے تمام طبقات تک منتقل ہونے چاہئیں ، یعنی چاہے آپ کی یونیورسٹی ہو یا علمائے کرام کی درسگاہیں، امت کی تربیت کی ذمہ داری ان دو طبقات پر عائد ہوتی ہے۔ ان دو طبقات کے فرائض دیگر طبقات کے فرائض سے زیادہ مقدس اور ان کی ذمہ داریاں دوسروں سے زیادہ ہیں ۔۔۔۔ چاہے علما کے مدارس ہوں یا آپ کی جامعات درسگاہوں کو انسانوں کی تربیت کے مراکز ہونے چاہئیں اور یہ ذمہ داری ہے جس کو نبھانے کے ذمے دار انبیائے کرام تھے۔ وہ انسان کی تربیت کے ذمہ دار تھے۔۔۔ یونیورسٹی ہر قسم کی تغیر و تبدل کا سرچشمہ ہے۔۔۔ یونیورسٹی کا قبلہ درست کرتے ہوئے اسے اسلامی یونیورسٹی میں تبدیل کریں ۔۔۔۔ ایسی یونیورسٹی میں جس کے عمل، علم اور اخلاق نورانی ہوں ہر چیز نورانی اور الٰہی ہو۔۔۔۔ آپ یونیورسٹی والے انسان کی تربیت کے لئے سعی کریں ۔ اگر آپ نے انسانوں کی تربیت کی تو گویا اپنے ملک کو نجات دلا دی۔ علمائے کرام اور دانشور حضرات ! آپ کو قوم کی سعادت کی ضمانت دینی چاہئے، یہ ذمہ داری آپ کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے، جامعات کو کوشش کرنا چاہئے، دینی درسگاہوں کو بھی سعی کرنا چاہئے اور آپ کی سائنسی یونیورسٹیوں کو بھی جد و جہد کرنا چاہئے کہ وہ انسانوں کی تربیت کریں ۔۔۔ اگر آپ کی درسگاہ میں کسی انسان کی تربیت ہوجائے تو وہ قوم کو نجات دلانے کے بارے میں سوچے گا، وہ اس فکر میں نہیں رہے گا کہ اسے کس طرح ہونا چاہئے یا اس کا اپنا عہدہ و مقام کیا ہونا چاہئے، وہ صرف نجات دہندہ بننا چاہتا ہے اور اگر کوئی شخص طاغوتی بن جائے تو وہ فائدہ حاصل کرنے کے درپے ہوتا ہے، نجات دینے کے نہیں اور وہ اپنی ذات کے لئے کام کرنا چاہتا ہے اپنے ملک کے لئے نہیں ۔۔۔‘‘(صحیفہ امام، ج۸، ص ۶۱و۶۲)
بعض اوقات امام خمینیؒ یونیورسٹی کالجوں کے اندر ہونے والی سازشوں کو بے نقاب کرتے ہوئے جامعاتی حلقوں کو ان سازشوں کو ناکام بنانے کی دعوت دیتے تھے اور انہیں خبردار کرتے تھے کہ کہیں یونیورسٹی مغربی ایجنٹوں کی سرگرمیوں کا مرکز نہ بن جائے:
’’ہماری یونیورسٹیوں کو انسانی تربیت کے مراکز ہونے چاہئیں ۔۔۔ اس وقت بیدار رہنا چاہئے، کیونکہ گنتی کے کچھ لوگ ان میں گھس رہے ہیں جو نہ اسلام کو پنپتے ہوئے دکھنا چاہتے ہیں اور نہ ہی انہیں یونیورسٹیوں کی اصلاح پسند ہے۔ وہ یونیورسٹیوں کی اصلاح سے ڈرتے ہیں ۔۔۔۔ یہ (مغرب زدہ عناصر) چاہتے ہیں کہ یونیورسٹی میں کوئی انسان بننے نہ دیں لہٰذا آپ (ان میں ) انسان بنانے کی سنجیدہ کوشش کریں ۔۔۔ شکایت کرنے نہ آئیں کہ یونیورسٹی میں فلاں آیا ہے اور اس قسم کی باتیں کر رہا ہے، بلکہ ان کے مقابل ڈٹ جاؤ۔اس سے کہدو صاحب! تم کیا چاہتے ہوَ تمہیں قوم سے ہمدردی ہے؟ ۔۔۔ یہ ایجنٹ ہے جو ہمیں ان (اغیار) کا محتاج بنانا چاہتے ہیں ۔ اپنے دوستوں اور دشمنوں کو پہچانئے ۔ (اسلامی سوچ رکھنے والے) دانشوروں کو چاہئے کہ وہ اسلام دشمن عناصر کو اپنے مراکز سے نکال باہر پھینک دیں ‘‘۔(صحیفہ امام، ج۸، ص ۶۳)
امام خمینیؒ اس عقیدے پر یقین رکھتے تھے کہ انسان عالم خلقت کا نچوڑ ہے اور اس کی اس طرح تربیت ہونی چاہئے کہ مادیات بھی روحانی اقدار کی گرفت میں ہوں لہٰذا آپ ؒ علمائے کرام اور دانشوروں کے دو طبقات سے مادیت پر روحانیت کی بالادستی کی توقع رکھتے تھے اور جس طرح مندرجہ بالا ارشادات سے معلوم ہوتا ہے امام خمینیؒ کی نظر میں ان دو طبقات کو انسان کی تربیت میں مشغول رہنا چاہئے اور انہیں خود بھی تزکیہ نفس کرنا چاہئے اور آپ ؒ کا یہ عقیدہ تھا کہ انبیاء کی رسالت کا لب لباب تزکیہ نفس ہی تھا اور یہ ذمہ داری اسلامی بلکہ انسانی معاشرے میں ان دو اہم مراکز کے علمائے دین، دانشوروں اور طلبہ و طالبات پر عائد کی گئی ہے اور ان دو طبقات کی کامیابی کا راز عمل کے ساتھ علم میں مضمر ہے، چنانچہ آپ ؒ کا فرمان ہے:
’’علم و عمل دو ایسے پر ہیں جو انسان کو انسانیت تک پہنچا دیتے ہیں ‘‘۔(صحیفہ امام، ج۷، ص ۶۳)