ناقابل تصور جرائم، اس طفل کش حکومت کی ماہیت کا حصہ

ناقابل تصور جرائم، اس طفل کش حکومت کی ماہیت کا حصہ

جیسا کہ امام خمینی(رح) فرماتے تهے، اسرائیل کو مٹ جانا چاہئے البتہ اسکا مطلب یہ نہیں کہ اس علاقے کے یہودی عوام کو ختم کردیا جائے بلکہ اس منطقی کام کے لئے عملی تدبیر موجود ہے۔

ملک کی یونیورسٹیوں اور تعلیمی مراکز کے تقریبا ایک ہزار ممتاز طلبہ نے قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ ڈهائی گهنٹے تک چلنے والی اس ملاقات میں طلبہ نے اپنے مطالبات، تجاویز اور طلبہ برادری کے مسائل بیان کئے۔ اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے طلبہ برادری کی مدبرانہ و ناقدانہ اور ذمہ دارانہ سوچ، مطالبات پیش کرنے کے جذبے اور جوش و خروش کی تعریف کرتے ہوئے غزہ کے واقعات کے عوامل و اسباب کا جائزہ لیا۔

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا:

"یہ ناقابل تصور جرائم اس بهیڑیا صفت اور طفل کش حکومت کی ماہیت کا حصہ ہیں جس کا واحد علاج اس حکومت کی نابودی اور تباہی ہے اور اس وقت تک فلسطینیوں کی ٹهوس مسلحانہ مزاحمت اور اس مزاحمت کے دائرے میں غرب اردن تک کی توسیع اس وحشی حکومت کا سامنا کرنے کا واحد موثر طریقہ ہے۔

غزہ میں فلسطینی عوام کو در پیش مشکلات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ واقعات کهلے وحشی پن اور آہنی شکنجے والی پالیسی کا مظہر ہیں جو غیر قانونی اور جعلی صیہونی حکومت نے اپنی عمر کے چهیاسٹه سال کے دوران اختیار کر رکهی ہے اور بار بار بڑے گستاخانہ انداز میں اس پر عملدرآمد اور ناز کرتی ہے۔

 قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا:

"جیسا کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ فرماتے تهے، اسرائیل کو مٹ جانا چاہئے البتہ اسرائیل کی نابودی جو واحد حقیقی راہ حل ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس علاقے کے یہودی عوام کو ختم کر دیا جائے بلکہ اس منطقی کام کے لئے عملی تدبیر موجود ہے جسے اسلامی جمہوریہ ایران نے عالمی اداروں میں پیش کیا ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس عملی تدبیر کے مطابق جسے دنیا کی قوموں کی تائید بهی حاصل ہے، اس علاقے میں زندگی بسر کرنے والے عوام جو یہاں کے اصلی باشندے ہیں، ایک ریفرنڈم میں شرکت کرکے اپنی پسندیدہ حکومت کا انتخاب کریں اور اس طرح غاصب اور جعلی صیہونی حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ البتہ فضل پروردگار سے اس بے رحم اور قاتل حکومت کی نابودی تک مقتدرانہ مقابلہ، ٹهوس اور مسلحانہ مزاحمت اس خانماں سوز حکومت کے سلسلے میں واحد مناسب روش ہے۔

قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تها کہ غزہ کے عوام کی حمایت مسلم اور غیر مسلم سبهی اقوام کا فرض ہے۔ آپ نے اسرائیل کی وحشی حکومت سے اقوام عالم کے اظہار نفرت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ان شاء اللہ یوم القدس کے موقعے پر دنیا ملت ایران کے جوش و خروش کا مشاہدہ کرے گی اور ایرانی عوام ثابت کر دیں گے کہ اس سرزمین میں فلسطین کی حمایت کا جذبہ بدستور موجزن اور خروشاں ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ غزہ کے مظلوم عوام پر ہونے والے مظالم کے سلسلے میں استکباری طاقتوں کے رویئے سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان، انسانیت اور انسانی حقوق پر ان کا کوئی یقین نہیں ہے اور آزادی و انسانی حقوق کے بارے میں وہ جو کچه بهی کہتے ہیں وہ آزادی اور انسانی حقوق کی تضحیک کے سوا کچه نہیں ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے صحیح مدبرانہ طرز فکر کے احیاء کو اسلامی انقلاب کی اہم خدمات کا جز قرار دیا اور فرمایا کہ عوام کی خواہش کے برخلاف کچه عناصر اس کوشش میں ہیں کہ وہی مغرب زدہ پست افراد ایک بار پهر ملک کی باگڈور سنبهال لیں، لہذا اس سوچ کا سد باب کرنے کی ضرورت ہے اور یہ استقامت اور امتناعی اقدام بالکل بجا اور منطقی ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے پہلے حصے میں طلبہ سے اپنی ملاقات کو بہت مفید اور ملک کے نوجوانوں میں جذبہ ایمانی اور عقل و منطق اور جوش و خروش کا آئینہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ طلبہ یونینوں کے نمائندوں نے آج جو باتیں بیان کیں ان سے طلبہ کے اندر اسی جذبے کا عندیہ ملتا ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ طلبہ کے اندر تنقید اور مطالبے کی جرئت کے ساته اخلاقیات، انصاف اور شرعی حدود کی پابندی بهی ضروری ہے اور ایسی باتوں سے اجتناب کیا جانا چاہئے جن کے بارے میں علم و یقین نہ ہو۔

قائد انقلاب اسلامی نے طلبہ سے فرمایا کہ فرض شناسی، تنقید اور مطالبات پیش کرنے کا یہ جذبہ اس وقت تک آپ کے اندر قائم رہنا چاہئے جب آپ مستقبل میں ملک کے عہدیداروں کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبهالیں گے، کیونکہ اگر ایسا ہوا تو ملک کی کشتی ساحل نجات سے جا لگے گی۔

طلبہ سے اپنے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے معاشرے کی ثقافت اور معاشی انتظامی طریقوں کے باہمی رابطے کے بارے میں بهی گفتگو کی۔

 

اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل بعض طلبہ نے الگ الگ موضوعات پر اپنے نظریات و خیالات پیش کئے۔

ای میل کریں