تحریر الوسیلہ

فقہ اور فتوے کے پہلو سے مقابلۂ ظلم اور عدالت طلبی کی فکر کا احیاء

’’احتمال تأثیر‘‘ اور ’’ضرر وحرج‘‘ کی بجائے ’’اہمیت‘‘ کی ترجیح

احیا کے سلسلے میں  امام امت  (ره)کے فقہی نظرئے اور مجتہدانہ رائے کو انتہائی اہم اور نمایاں  مقام حاصل ہے۔ آپ اپنے متعدد ہم عصر مراجع اور فقہاء میں  سے پہلے فرد ہیں  جنہوں  نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو فقہی اور فتاویٰ کی کتب میں  بھرپور اور انقلابی انداز سے جگہ دے کر اس فکر کو زندہ کیا۔ امام خمینی  (ره) نے اپنی کتاب ’’تحریر الوسیلہ‘‘ میں  کہ جسے آپ نے ۱۹۶۴ ء میں  اپنی ملک بدری کے زمانے میں  ترکی میں  تحریر کیا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے باب میں  ایسے مسائل پر قلم اٹھایا ہے جن کو یقینی طورپر انقلاب اسلامی ایران کا محرک اور سبب قرار دیا جاسکتا ہے۔ آپ نے اس کی پہلی جلد میں  امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی چوتھی شرط کی بحث میں  چھٹے مسئلے اور بعد کے چند مسائل میں  فقہی فتوے کے طورپر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں  پہلی مرتبہ ’’احتمال تأثیر‘‘ اور ’’ضرر وزیان‘‘ کی بجائے ’’اہمیت‘‘ کا نظریہ پیش کیا۔ آپ چھٹے مسئلے میں  (مختصراً) فرماتے ہیں :

’’اگر معروف اور منکر ان مسائل میں  سے ہوں  جو خدا ورسول  (ص) کے نزدیک اہمیت کے حامل ہیں  مثلاً، مسلمانوں  کی جان کا تحفظ، ہتک نوامیس، اسلامی آثار کی نابودی، اسلامی حجتوں  کے علائم کی نابودی، اسلامی شعائر کی تباہی۔۔۔ اور ان کی وہی اہمیت ہو جو دین کی اہمیت ہے تو پھر حرج وضرر ذمہ داری کے برطرف ہونے کا موجب نہیں  بنتے ہیں ۔ اگر اسلامی حجتوں  کی برقراری ایک یا بہت سی جانوں  کے فدا کرنے پر موقوف ہو تو ظاہر یہ ہے کہ جان کی بازی لگا دینا واجب ہے‘‘۔(تحریر الوسیلہ، ج ۲، ص ۴۷۲)

امام امت  (ره) نے سب سے پہلے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ ظلم وستم اور ناانصافی کا مقابلہ کرنے کیلئے ’’حرج وضرر‘‘ بلکہ ’’احتمال تأثیر‘‘ تک سے ’’اہمیت‘‘ کا مسئلہ زیادہ اہم ہے اور جہاں  ’’اہمیت‘‘ ہو وہاں  ظلم وستم کے مقابلے کیلئے جیل جانا، رسوائی مول لینا اور مؤثر ثابت نہ ہونے کا احتمال جیسے مسائل تو درکنار جان تک قربان کردینا واجب ہے۔

ساتویں  مسئلے میں  بھی آپ فرماتے ہیں : ’’اگر اسلام میں  کوئی بدعت رونما ہو اور علمائے دین اور رؤسائے مذہب (اعلیٰ اﷲ کلمتہم) کی خاموشی توہین اسلام اور مسلمانوں  کے عقائد کے متزلزل ہونے کا باعث ہو تو ہر ممکن ذریعے سے اس کی روک تھام کی جانی چاہئے‘‘۔(تحریر الوسیلہ، ج ۲، صفحات ۴۷۲ و۴۷۴)

اس بارے میں  اہمیت کی حامل یہ بات ہے کہ امام امت  (ره) کے نزدیک ’’احتمال تأثیر‘‘ کی کوئی وقعت نہیں  ہے، کیونکہ ایک یہ کہ مسئلے کی اہمیت، احتمال تأثیر اور ضرر وحرج جیسے مسائل سے بدرجہ ہا زیادہ ہے۔ دوسرے یہ کہ مؤثر واقع ہونے کے احتمال کی کوئی ضرورت ہی نہیں  ہے، کیونکہ اگر قلیل المیعاد تأثیر مقصود ہو تو اس کی کوئی اہمیت نہیں ۔ اہم طویل المیعاد تأثیر ہے جو کہ زیادہ جھڑپوں  اور مقابلوں  کے نتیجے میں  آشکارا ہوگی۔ تیسرے یہ کہ امام امت  (ره) کے پیش نظر مقابلہ ظلم کا نہ تو عملی نتیجہ ہے اور نہ ہی اس کے علمی اثرات بلکہ آپ نے اس کو ایک فرض کے طورپر پیش کیا ہے۔ آپ   (ره) نے بعد میں  بھی بارہا اس بات کو بیان فرمایا کہ ہمارے نزدیک فرض کی ادائیگی اہمیت رکھتی ہے تأثیر وفتح وغیرہ نہیں ۔

آپ آٹھویں  مسئلے میں  فرماتے ہیں : ’’اگر دینی علماء اور سربراہوں  کی خاموشی لوگوں  کی نگاہوں  میں  برائیاں  اچھی اور اچھائیاں  بری یا ظالم کی تقویت اور حمایت یا ظالموں  میں  محرمات اور بدعتوں  کے ارتکاب کی جرأت کا سبب بنے یا علم کی توہین اور اس کے بارے میں  بدگمانی اور خدانخواستہ علماء پر ظالموں  کی مدد کا الزام لگائے جانے کا موجب ہو تو حق کو ظاہر کرنا اور باطل کا انکار کرنا واجب ہے ہر چند فی الوقت اس کا کوئی اثر نہ ہو‘‘۔(تحریر الوسیلہ، ج ۲، صفحات ۴۷۲ و۴۷۴)

آپ نویں  مسئلے میں  رقمطراز ہیں : ’’اگر علمائے دین اور رؤسائے مذہب کی خاموشی سے ظالم کی حمایت اور تقویت ہوتی ہو تو ان کا خاموش رہنا حرام ہے اور اظہار کرنا واجب ہے چاہے ظلم کی روک تھام میں  مؤثر نہ ہی ہو‘‘۔(تحریر الوسیلہ، ج ۲، صفحات ۴۷۲ و۴۷۴)

الغرض؛ امام امت  (ره) نے ظلم کے مقابلے کی فکر اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو حیات نو عطا کرنے کے سلسلے میں  جو نظریہ پیش کیا ہے وہ ’’احتمال تأثیر‘‘ اور ’’ضرر وحرج‘‘ کی بجائے ’’اہمیت‘‘ کی ترجیح پر استوار ہے۔

ای میل کریں